ظاہر اور باطن میں مکالمہ


ایک دن یوں ہی خود کو آئینے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ خود کو دیکھتے دیکھتے میں کچھ خیالات میں کھو گیا اوراسی دوران میرے ظاہر اور باطن نے ایک دوسرے سے گُفتگو شروع کر دی۔

ظاہر خود کو دیکھ کرمغرور ہو کربولا کہ میری سچائی یہ ہے کہ خُدا نے مجھے اشرف اُلمخلوقات بنایا۔ اسی دوران باطن اسے ٹوکتے ہوئے بولا کہ یہ ایک جھوٹ ہے کیونکہ شیطان کے شانہ بشانہ چلنے والا اس کا ساتھی بھی تو ہی ہے۔ تجھے نہ تو سچ کی صحیح پہچان ہے اور نہ ہی جھوٹ کی۔ اپنے غرض کی خاطر جھوٹ کا ساتھ دینے اور سچائی کے خلاف جانے والا بھی تو ہی ہے۔ اس پر ظاہر ہنس کر بولا کہ بھئی یہ تو میرا راز ہے جو تب تک عیاں نہیں ہو سکتا جب تک میں خود نہ کروں۔

پھر ظاہر بولا کہ اس نفسا نفسی کے دور میں امن صرف میری ہی بدولت ہے، میں امن کا پہرے دار ہوں۔ اس بات پر باطن نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا کہ کیوں خود پرجھوٹا مان کرتا ہے توہی تو ہے جس نے دُنیا کا امن نیست و نابود کیا۔ یہ دُنیا تو خُدا نے بے حد خوبصورت بنائی، یہ تو ہی تھا جس نےاپنے فائدے کے لیے یہاں فتنہ و فساد برپا کیا اور اب امن کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے۔ معصوموں کی جانیں لینے والا تو خود ہے اور پھر ان پر آنسو بہانے والا اور افسوس کرنے والا بھی تو ہی ہے۔ ظاہر بولا کہ چاہے جو بھی ہو ان کے لیے جنگیں بھی تو میں ہی لڑتا ہوں۔ باطن یہ بات سُن کر خاموش ہو گیا۔

ظاہر اپنے آپ پر رشک کرتے ہوئے پھر بولا: میں اتنا خُوش قسمت ہوں کہ خُدا نے مجھے فرشتوں سے بھی بڑا درجہ عطا کیا تاکہ میں اس کی عبادت کروں۔ باطن بولا کہ یہ بھی یاد رکھ کہ لوگوں کے درمیان عبادت کرنے کے بعد اکیلے میں دوسروں کی عزتوں سے درندگی کرنے والا اور شر انگیزی پھیلانے والا بھی تو ہے اور یہ تیری وہ حقیقت ہے جو تو جانتے ہوئے بھی کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ نیکی کا فرشتہ ہونے کے دعوے مت کر کیونکہ اپنے غرض اور فائدے کی خاطر اگر تو نفرت پھیلانے پر آئے تو تو شیطان کو بھی سبق پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ سُن کر ظاہر کچھ بوکھلا سا گیا اور بولا کہ شاید تو یہ بات نہیں جانتا کہ میں دوستی کے معاملے میں سب سے بہترین دوست ہوں یہاں تک کہ جانور بھی میری محبت میں گرفتار ہیں۔ اس پر باطن بولا کہ تو دوستی کی باتیں کرتا ہے؟ میں وہ ہوں جو تیری اُن باتوں سے بھی باخبر ہوں جو تو اکیلے میں بھی ڈر کے مارے کسی سے نہیں کہتا کہ کہیں تیرا کوئی راز تیری ہی زبان پر نہ آ جائے اور کوئی سُن نہ لے۔ کیا تو بھول گیا کہ تو ہی وہ ہے جس نے بارہاں اپنے دوستوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا کیونکہ تجھے صرف اس بات کا ڈر تھاکہ وہ تجھ سے آگے نہ نکل جائے یا تجھ سے زیادہ حاصل نہ کر لیں۔ تو منہ پر تو اس کا سچا دوست بنا رہا پر حقیقت میں تو نے اس کے دُشمن سے بھی بدترہو کر اس کے خلاف چالیں چلیں اور وہ بے چارہ تجھے غم خوار سمجھ کر تجھ سے اپنا غم بانٹتا رہا۔

اس قدر منافق اور حاسد ہے تو! اور تو خود کو دوست کہتا ہے؟ حقیقیت تو یہ ہے کہ جانور، درندے، جن بھوت تو یوں ہی بدنام ہیں، سب سے زیادہ خطرناک تو تو خود ہے جو اپنے ہی بھائیوں اور دوستوں کی جڑیں کاٹتا ہے اور انہیں اس بات کا علم تک نہیں ہونے دیتا۔ شاید اشرف المخلوقات ہونے کے تکبر میں اور کچھ نیکیاں کر کے تو یہ بات بھول گیا ہے کہ تو خاک سے بنایا گیا ہے اور تجھے خاک میں ہی مل جانا ہے۔ البتہ اس خاک میں جانے کے لیےتو نے نہ تو کبھی تیاری کی اور نہ ہی کر رہا ہے۔

اس سوال کا ظاہر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ کچھ دیر چُپ رہا اور پھربولا کہ جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں، ہوں تو انسان ہی نا۔ غلطیوں کی معافی مجھے مل جائے گی اور مرنے سے پہلے گناہوں کا ازالہ بھی کر لوں گا۔ اتنے میں میرے کانوں میں ایک آواز پڑی اور میں اپنے حواس میں لوٹ آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).