زیڈاے بھٹو شہید:دورۂ امریکہ و کینیڈا کے مشاہدات


ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بارے ان کے پرستاروں اور مخالفین نے بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ کہا ہے لیکن آج ان کے مخالفین اور چاہنے والے سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبّر، اسٹیٹس مین اور ذہین سیاستدان تھے، جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کی فوجی شکست، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شکست خوردہ بچے کھچے پاکستان کو ایک نیا حوصلہ دیا اور ایک نئے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی کے آغاز کے ساتھ ہی میں شمالی امریکہ چلا آیا لہٰذا ان کے دور حکمرانی بارے تو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن ان کے دورۂ امریکہ اور کینیڈا کا عینی شاہد ہونے اور اس دور کے اقوام متحدہ میں غیرملکی سفارت کاروں کی رائے کی بنیاد پر حتمی رائے ہے کہ بھٹو شہید تیسری دنیا کے ملک پاکستان کے لیڈر تھے مگر عالمی امور میں وہ دنیا کے تسلیم شدہ سفارت کاروں اور لیڈروں سے بھی اپنی ذہانت تسلیم کروا لیتے تھے۔ ویتنام کی جنگ کے خالق، امریکی وزیر دفاع اور ورلڈ بینک کے سربراہ رابرٹ میکنامارا نے امریکی دانشور اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی موجودگی میں واشنگٹن کے ایک ڈنر میں بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے مسٹر بھٹو تھرڈ ورلڈ میں پیدا ہوئے، اگر یہ امریکہ میں ہوتے

تو میں اور ہنری (کسنجر) ہم دونوں امریکی سیاست سے باہر (آئوٹ) ہوتے۔ یہ جملہ سن کر ڈنر کے شرکا نے قہقہے بلند کئے اور قریب ہی ڈائس پر بیٹھے بھٹو شہید قدرے شرماتے نظر آئے۔ یہ واقعہ دراصل فروری 1975ء میں صدر جیرالڈ فورڈ کے دور میں سرکاری دورۂ امریکہ کے دوران پیش آیا۔ 43سال قبل 1975ء میں بھٹو شہید کے دورۂ امریکہ کے تاثّرات آج بھی منفرد طور پر محسوس ہوتے ہیں حالانکہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر فورڈ کی حکومت کمزور اور مشکلات کا شکار تھی۔ ایک امریکی صحافی نے ذوالفقار علی بھٹو سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ امریکہ کے واٹرگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ ان دنوں پاکستان کی زرعی زمینوں کو سیم اور تھور کے ہاتھوں تباہی کا سامنا تھا۔ ادھر واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر نکسن مستعفی ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ایک غیر منتخب جیرالڈ فورڈ بہ طور صدر نامزد ہو کر صدارت کر رہے تھے اور عوامی جذبات واٹرگیٹ اسکینڈل کے خلاف تھے۔ واٹرگیٹ کی حمایت اور حکومت وقت کی تعریف عوامی جذبات کے برعکس ہوتی اور واٹرگیٹ کی مخالفت حکومت وقت کی میزبانی اور جذبات کے خلاف سمجھی جاتی۔ بھٹو صاحب نے کمال سرعت سے جواب دیا کہ میرے ملک کے کسان ’’واٹرلاگنگ (سیم) کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور میں (Water Lossing) ’’سیم‘‘ کے سلسلے میں آپ کے ملک سے مدد مانگنے آیا ہوں۔ واٹر لاگنگ کا مسئلہ میرے ملک میں حل ہو جائے تو پھر میں واٹرگیٹ (اسکینڈل) کے بارے میں کوئی تبصرہ کر سکوں گا۔ بھٹو صاحب کے اس برجستہ جواب پر امریکی صحافی حیران ہو گیا۔

بھٹو صاحب کا یہ دورۂ امریکہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ ہنری کسنجر جیسا امریکی دانشور اور فارن پالیسی ایکسپرٹ امریکی وزیر خارجہ تھا، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے بعد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور عزائم کے حوالے سے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران دھمکی دی تھی کہ وہ ایٹمی پلان سے باز رہیں۔ بھٹو صاحب کی موت کے کئی سال بعد اقوام متحدہ میں ایک تقریب کے دوران ڈاکٹر ہنری کسنجر سے میرا آمنا سامنا ہو گیا تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ نے ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے پاکستان کے بھٹو شہید کو جو دھمکی دی تھی اس کے تناظر میں آپ بھٹو صاحب کی موت بارے کیا کہیں گے؟ سوال سن کر ہنری کسنجر کے چہرے پر ناگواری آئی اور اپنی بھاری آواز میں یہ کہہ کر آگے نکل گئے کہ میں ایسے سوالوں کا جواب نہیں دیتا۔

اگلے سال فروری 1976ء میں وزیراعظم بھٹو کینیڈا کے سرکاری دورہ پر آئے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کے والد پیئرایلیٹ ٹروڈو میزبان اور کینیڈا کے وزیراعظم تھے، ضیاء محی الدین بھی ہمراہ تھے، شیخ افتخار علی کینیڈا میں سفیر، مرحوم صحافی خالد حسن قونصل جنرل اور ڈان کے معروف صحافی نسیم صاحب سیکرٹری اطلاعات تھے۔ بانی جنگ گروپ محترم میر خلیل الرحمٰن بھی وفد میں موجود تھے۔ کینیڈا کے وزیراعظم پیئرٹروڈو اور ان کی اہلیہ عالمی شہرت یافتہ ماڈل مارگریٹ ٹروڈو، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی اہلیہ نصرت بھٹو کے ہمراہ ڈنر کے موقع پرخوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے رہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے کینیڈین ہیوی واٹر کے حصول میں ناکامی اور ایک حسّاس معاملے پر کینیڈا کی شکایت کے باوجود کینیڈین وزیراعظم سے بھٹو صاحب کی گفتگو بامقصد اور خوشگوار رہی۔ آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی اس دورۂ اوٹاوا میں موجود تھے۔ دوسرے روز بھٹو صاحب نے ٹورنٹو میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرنا تھا لیکن رات کو اوٹاوا اور ٹورنٹو میں شدید برف باری ہوگئی اور فلائٹس سمیت ہر کام میں تاخیر اور مشکلات ابھر آئیں۔ بھٹو صاحب، بیگم نصرت بھٹو اور پاکستانی وفد بھی ٹورنٹو تاخیر سے پہنچے۔ ٹورنٹو کے ایک ہال میں جمع پاکستانی کمیونٹی سے بھٹو صاحب نے خطاب شروع کیا تو ایک نوجوان نے بھٹو صاحب سے سوال کرنے کی کوشش کی۔ پولیٹکل پولرائزیشن کے اس دور میں بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین بھی بہت منظّم اور ’’چارجڈ‘‘ تھے لہٰذا بھٹو صاحب نے بعد میں جواب دینے کا کہہ کر تقریر جاری رکھی مگر جلد ہی سیاسی چنگاریاں نظر آنے لگیں۔ بھٹو صاحب کے سخت جواب اور ایک محافظ کی گرم مزاجی نے جلسہ درہم برہم کر دیا اور اگلے روز کینیڈا کے تمام اخبارات میں بھٹو صاحب کے دورہ کی تفصیل کی بجائے پاکستانی کمیونٹی کے جلسے میں دوطرفہ گرمی و تلخی کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ اس دورہ کے بعد بھٹو صاحب کبھی کینیڈا نہیں آئے لیکن کینیڈین وزیر اعظم پیئر ٹروڈو جو اپنی نوجوانی کے دنوں میں عام کینیڈین کے طور پر پاکستان کا سفر کر چکے تھے، وہ بھٹو صاحب کے بارے میں اپنے مثبت تاثّرات کا ذکر کیا کرتے تھے۔

اے پی پی کے سینئر صحافی افتخار علی چودھری اقوام متحدہ اور امریکہ سے رپورٹنگ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھٹو مرحوم نے پاک۔ بھارت 1971ء کی جنگ کے دوران جو کاغذ پھاڑے تھے اور جن کو پولینڈ کی قرارداد کہہ کر بھٹو صاحب کو بدنام کیا جاتا ہے، وہ دراصل پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ ہی نہیں تھا بلکہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں آج بھی پولینڈ کی ایسی کسی قرارداد کا کوئی غیر منظورشدہ مسودہ ہی موجود نہیں۔ افتخار علی کا کہنا ہے کہ وہ دراصل بھٹو صاحب کی سلامتی کونسل میں تقریر کے کچھ نوٹس تھے جو انہوں نے سلامتی کونسل سے واک آئوٹ کرتے وقت پھاڑ دیئے تھے۔ جب انہوں نے بھٹو صاحب سے ان کی تقریر کا مسودہ مانگا تو انہوں نے پھاڑے گئے کاغذات پر نوٹس کا ذکر کیا۔ افتخار علی صاحب نے وہ پھٹے ہوئے تاریخی کاغذ کے ٹکڑے اٹھائے، جوڑ کر انہیں پڑھا اور خبر تیار کر کے فائل کر دی۔

اگست 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ملاقات میں آصف زرداری، فاروق نائک اور پی پی پی امریکہ کے صدر شفقت تنویر کی موجودگی میں محترم بشیر ریاض کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کی اطلاع مجھے کب اور کیسے ملی؟ تو میں نے پاکستان میں 4؍اپریل 1979ء کے اس تاریخی سانحہ کی تفصیل بتائی کہ ڈیٹرائٹ کے پاکستانی، امریکن وکیل شیخ (مرحوم) نے مقامی وقت کی نصف شب کے بعد مجھے کال کر کے اطلاع دی تو تصدیق کیلئے میر مرتضیٰ کو لندن فون کیا جو بشیر ریاض نے اٹھایا اور تصدیق کی۔ اگلی صبح بوبی کینیڈی جونیئر اور دیگر ایسے امریکی جو بھٹو صاحب کی زندگی بچانے میں سرگرم تھے مثلاً ریمزے کلارک وغیرہ کو فون کرکے اطلاع دی مگر وہ پہلے ہی اس پاکستانی اور عالمی سانحے سے باخبر تھے۔ آج بھٹو کی موت کو اپنے، پرائے حامی اور مخالف سب ہی ایک ناانصافی اور ایک عالمی المیہ قرار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).