شکیل چوہدری کا  ذاتی ناشائستہ حملہ: جواب الجواب


\"anwar\"محترم شکیل چوہدری صاحب نے کتنے جعلی آئی ڈی بنا رکھے ہیں جن کو استعمال کر کے کل پہلے میرے  تبصرے پر بدتمیزی کی گئی، پہلے سلم نے اپنی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا پھر ایک قاضی جس نے مذہب  کی آڑ لے کر میرے تبصرے کولچرپن کہا، پھر ایک ارشد محمود جو مجھے سابق سیکریٹری اطلاعات سمجھ کر
بے ہودہ پن کا مظاہرہ کررہا تھا اور جب میں نے بتادیا کہ میں سابق سیکریٹری اطلاعات نہیں ہوں تو ایک اور صاحب  سلمان احمد آئے اور مجھ سے میری معلومات مانگیں ،میں سمجھ رہا تھا کہ چوہدری صاحب آپ کیا کھیل رہے ہیں ، لہذا جیسے ہی آپ کو میرے متعلق  یہ کنفرم ہوگیا کہ میں سابق سیکریٹری اطلاعات نہیں ہوں ، آپ نے  اپنی بہادری کا ثبوت اس مضمون کی شکل میں دےڈالا، چوہدری صاحب لکھتے ہیں تو دل بھی بڑا کریں ، اس کوچہ میں اگر تعریف ہوتی ہے تو مخالفت بھی ، ورنہ ان چھ سطروں کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا تھا، یا پھر میرے تبصرےکے نیچے ہی جواب لکھ دیتے لیکن جیسے کہ آپ  نےمجھے مخاطب کرتے ہوئے  لکھا ہے  کہ‘‘آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ کے چند جملے ایک مفصل اور تحقیقی  مضمون پر فوقیت رکھتے ہیں’’؟  چوہدری صاحب  ‘‘چور کی داڑھی میں تنکا’’ کی مثال سے تو آپ  واقف ہوں گے ، یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کو میرے خلاف پورا مضمون لکھنا پڑا، اس لیے کہ میرے چند جملے ہی آپ کے اس مفصل اور نام نہاد تحقیقی مضمون پر بھاری ہیں۔

 جناب میں  نے آپ کے مضمون  ‘‘مولانا آزاد پر ناشائستہ حملہ: جواب الجواب’’ صرف چھ لاین کا ایک تبصرہ کیا تھا جس میں  نے آپ کے اور صرف  آپ کے انداز کوبیہودہ کہا تھا جس پر میں اب بھی قائم ہوں اور اگر آپ زیادہ اپنے بارےمیں  لوگوں کے خیالات  جاننا چاہتے  ہیں تو سید عابد علی کے مضمون ‘‘ابوالکلام آزاد: ناشائستہ حملہ، شائستہ جواب’’ میں  لوگوں کے تبصرےپڑھ لیں، ایک صاحب نے فرمایا ہے کہ ‘‘بہت خوب عابد علی بخاری، بہت مناسب طریقے سے مدلل جواب دیا ہے آپ نے۔ شکیل چوہدری کو اپنے اور آپ کے طرز تکلم کا موازنہ ضرور کرنا چاہیے’’۔ میں نے اپنے تبصرےمیں ایک سوال بھی کیا تھا  آپ سے کہ ‘‘کیا محمد علی جناع ایک بیوقوف انسان تھے اور ساری عقل مولانا آزاد کے پاس تھی؟’’  آپ نے  میری مخالفت میں جو کچھ فرمایا ہے  سب کچھ ہے لیکن  اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن آپ کی سوچ منفی ہے، آپ لوگوں کو دلائل نہیں دےرہے ہوتے بلکہ ان پر طنز برسارہے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘معذرت خواہ ہوں کہ میرا مضمون ’مولانا آزاد پر ناشائستہ حملہ :جواب الجواب ‘پڑھ کر آپ کےحب الوطنی کے جذبہ  کو ٹھیس پہنچی۔ بڑے ادب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ  آپ کا یہ جذبہ اتنا نازک کیوں ہے’’؟  کیا ایک مصنف کو یہ انداز ااپنانا چاہیے جبکہ وہ اپنے مخالف سے مخاطب ہو۔

ہمارا اصل موزوں مولانا ابوکلام آزاد ہیں میں یہاں صرف ان پر بات کروں گا۔ میں جب کسی سے مکالمہ کرتا ہوں  تو بات صرف اصل موضوع پر کرتا ہوں۔ پاکستان میں آپ پہلے نہیں ہیں جن کو آزاد سے عشق ہے بلکہ اور بھی ہیں۔ 23 مارچ پاکستان کے لیے اہم ترین دن ہے جسے ہم یوم پاکستان کہتے ہیں۔ مگر شاید اینکر کامران خان کو یہ دن پسند نہیں اس لیے 23 مارچ 2012ء کو انہوں نے سبز قمیض پہن کر جیو پر اپنے پروگرام \”آج کامران خان کے ساتھ\” کو \”آج ابوالکلام آزاد کے ساتھ\” میں بدل ڈالا، اور 25 منٹ تک  ابوالکلام آزاد کی ان باتوں کا تذکرہ کرتے رہے جو پاکستان مخالف تھیں۔ ابوالکلام آزاد نو سال تک کانگریس کے صدر رہے لیکن  گاندی یا نہرو سے مسلمانوں کے حق میں ایک بات بھی نہیں منواسکے۔ جناح صاحب ان کو کانگریس کا شو بواے کہتے تھے۔ جب یہ وزیرتعلیم تھے تو اس وقت ہی سے ہندوستان کی تاریخ میں سے مسلمانوں کے اصل کردار غائب ہوتے رہے اور مسلمان حکمرانوں کو غاصب، لٹیرے اور حملہ آور لکھا گیا اور آج بھِی ہندوستان کی تاریخ میں یہ ہی لکھا ہوا ہے۔

مولانا آزاد کو بھارت اور پاکستان میں ایک متنازع حیثیت حاصل ہے۔ جو شخص قائد اعظم کے حوالے سے یہ سوال اٹھائے کہ کیا جناح ایک مسلم رہنما ہیں؟ جونو سال کانگریس کا صدر کم، نہرو اور پٹیل کا ذاتی ملازم زیادہ لگے، جو شخص پاکستان کی ساری زندگی مخالفت کرتا رہا ہو۔ آزاد جو ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے دعوے دار تھے مگر ہندوستانی مسلمانوں نےقائد اعظم محمد علی جناح کی حمایت کی اور آزادکو ایک کونے میں لگادیا ۔ بنگلہ دیش بننے کے بعدلوگوں کوآزاد کی ایک پیش گوئی کہ پاکستان کی عمر 25 سال ہے یاد آئی مگر یہ آزاد کی پیشنگوئی نہیں دلی خواہش لگتی ہے، جب ہی اندرا گاندھی نے کہا تھاکہ آج دو قومی نظریہ ختم ہوگیا، اصل میں وہ اپنے والد جواہر لال نہرو کے دوست آزاد کی زبان بول رہی تھی، بنگلہ دیش ضرور بنا اور آج بھی قایم ہے، پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہے، مگرآزاد کا اکھنڈبھارت 1947ء میں جو ٹوٹا تو اب کبھی اکھنڈ نہیں ہوسکے گا۔

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 28 اکتوبر2013ء سے 16 دسمبر 2013ء تک  اپنے مضامین میں مولانا آزاد کو موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنےپانچ مضامین میں پاکستان کے ایک کٹر مخالف مولانا ابوکلام آزاد کے ہم خیال بنے ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناع مولانا آزاد کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اُنکو کانگریس کا شوبوائے کہتے تھے۔۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تین کالم میں جو دو، نو اور سولہ دسمبر 2013 کوروزنامہ جنگ میں شایع ہوئے اس میں مولانا آزاد کا انٹرویو شایع کیا۔ اس پورےانٹرویو کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسے سیاستدان کا انٹرویو ہے جو پاکستان اور قائداعظم کا بدترین مخالف تھا، مثال کے طور پر جب اُن سے کہا گیا کہ \” بعض علماء بھی تو قائداعظم کے ساتھ ہیں‘‘۔ تو مولانا آزاد کا جواب تھا \” علماء اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے، اُس کی خاطر انہوں نے ’’دین اکبری‘‘ ایجاد کیا تھا، اس شخصی بحث کو چھوڑو، اسلام کی پوری تاریخ ان علماء سے بھری پڑی ہے جن کی بدولت اسلام ہر دور میں سسکیاں لیتا رہا۔ راست باز زبانیں چند ہی ہوتی ہیں\”۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمونوں کے جواب میں ایک مضمون لکھا تھا، آپ چاہیں تو اس لنک کے زریعے پڑھ سکتے ہیں ، اس میں آپ کو آزاد کے بارےمیں کچھ اور مواد بھی مل جائےگا۔

  http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=41491

ایک آخری بات آزاد نےانڈیا ونس فریڈم نامی ایک کتاب لکھی مگر اسکے کچھ اوراق 30 سال بعد چھاپنے کے لیے لاکر میں رکھ دئیے تھے، ایسا آزاد نے کیوں کیا، بقول تاریخ داں ڈاکٹر صفدرمحمود کے کہ کانگریس کے اس شو بوائے نے گاندھی اور نہرو کے بارے میں لکھا تھا اور وہ جانتا تھا 30 سال بعد تینوں میں سے کوئی نہیں ہوگا۔

میرا خیال ہے میرا یہ جواب آپ کے لیے کافی ہوگا، ویسے مجھے معلوم ہے آپ نے کچھ ماننا نہیں، ہاں ایک اور بات چوہدری صاحب  کہ میں فتوی قطعی نہیں دیتا اس لیے اپنے آپ کو درست کرلیں میں نے  آپ کے مضمون پررائے دی تھی اور وجاہت  مسعود صاحب سے شکوہ کیا تھا۔

\”ہم سب\” کی پالیسی  آزادی اظہار کی ہے۔ ہم کسی تحریر کو نقطہ نظر کے اختلاف کی بنیاد پر مسترد نہیں کرتے۔ شرط صرف یہ کہ  ذاتی  حملے نہ کئے جائیں۔ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی نہ کی جائے اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ جہاں تک \”ہم سب\” اور اس کے  مدیر کے بارے میں کمنٹ کا تعلق ہے، ادارہ اس کا جواب نہیں دیتا اور نہ اس پر کوئی پابندی لگاتا ہے۔  ہم اپنے سب پڑھنے اور لکھنے والے احباب کے شکر گزار ہیں۔ تاہم ایک بار پھر درخواست ہے کہ ایک دوسرے کی ذات اور نیت کو ہدف بنانے کی بجائے اگر دلائل کو متعلقہ موضوع تک محدود رکھا جائے تو مکالمہ بھی آگے بڑھے گا اور پڑھنے والوں کی رہنمائی بھی ہو گی۔ پڑھنے والوں کو اس سے کیا غرض کہ لکھنے ولا کون ہے اور اس کے \”پس پردہ عزائم\” کیا ہیں۔ ذاتی شکوے شکایت سے پڑھنے والے کی نظر میں مکالمے کی افادیت مجروح ہوتی ہے۔ پڑھنے والا اپنی معلومات اور علم میں اضافے کے لئے \”ہم سب\” پر آتا ہے۔ اسے شائستہ  اور غیر شخصی تبادلہ خیال پڑھنے کو ملنا چاہیے۔  مدیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments