پھوجا حرام دا


ایف۔اے کے دوسرے سال میں اُس نے تفریحاً پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں چار آنے کی شکر ڈال دی جس نے کاربن بن کر سارے انجن کو غارت کر دیا پرنسپل کو کسی نہ کسی طریقے سے معلوم ہوگیا کہ یہ خطرناک شرارت پھوجے کی ہے مگر حیرت ہے کہ اُنھوں نے اس کو معاف کر دیا بعد میں معلوم ہوا کہ پھوجے کو اُن کے بہت سے راز معلوم تھے۔ ویسے وہ قسمیں کھاتا کہ اس نے ان کو دھمکی وغیرہ بالکل نہیں دی تھی کہ انھوں نے سزا دی تو وہ انھیں فاش کر دے گا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کا بہت زور تھا۔ انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جلسے ہوتے تھے۔ حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی تھی۔ گرفتاریوں کی بھرمار تھی۔ سب جیل باغیوں سے پُر تھے۔ آئے دن ریل کی پٹڑیاں اُکھاڑی جاتی تھیں۔ خطوں کے بھبکوں میں آتش گیر مادہ ڈالا جاتا تھا۔ بم بنائے جارہے تھے پستول برآمد ہوتے تھے غرض کہ ایک ہنگامہ برپا تھا اور اس میں اسکول اور کالجوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ پھوجا سیاسی آدمی بالکل نہیں تھا۔ میرا خیال ہے اُس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مہاتما گاندھی کون ہے۔ لیکن جب اچانک ایک روز اُسے پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بھی ایک سازش کے سلسلے میں تو سب کو بڑی حیرت ہوئی۔

اس سے پہلے کئی سازشیں پکڑی جا چکی تھیں۔ سانڈرس کے قتل کے سلسلے میں بھگت سنگھ اور دت کو پھانسی بھی ہو چکی تھی اس لیے یہ نیا معاملہ بھی کچھ سنگین ہی معلوم ہوتا تھا الزام یہ تھا کہ مختلف کالجوں کے لڑکوں نے مل کر ایک خفیہ جماعت بنا لی تھی جس کا مقصد ملک معظم کی سلطنت کا تختہ اُلٹنا تھا۔

ان میں سے کچھ لڑکوں نے کالج کی لیبارٹری سے پکرک ایسڈ چرایا تھا جو بم بنانے کے کام آتا ہے۔ پھوجے کے بارے میں شُبہ تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا اور اس کو تمام خفیہ باتوں کا علم تھا !

اس کے ساتھ کالج کے دو اور لڑکے بھی پکڑے گئے تھے ان میں ایک مشہور بیرسٹر کا لڑکا تھا اور دوسرا رئیس زادہ۔ ان کا ڈاکٹری معائنہ کرایا گیا تھا اس لیے پولیس کی مار پیٹ سے بچ گئے مگر شامت غریب پھوجے حرامدے کی آئی۔ تھانے میں اُس کو الٹا لٹکا کر پیٹا گیا۔ برف کی سلوں پرکھڑا کیاگیا۔ غرض کہ ہر قسم کی جسمانی اذّیت اُسے پہنچائی گئی کہ راز کی باتیں اُگل دے مگر وہ بھی ایک کتے کی ہڈی تھا، ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلکہ یہاں بھی کم بخت اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ ایک مرتبہ جب وہ مار برداشت نہ کرسکتا اُس نے تھانے دار سے ہاتھ روک لینے کی در خواست کی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ بتا دے گا۔ بالکل نڈھال تھا اس کے لیے اُس نے گرم گرم دُودھ اور جلیبیاں مانگیں۔۔۔ طبیعت قدرے بحال ہوئی تو تھانیدار نے کاغذ قلم سنبھالا اور اُس سے کہا لو بھئی بتاؤ۔۔۔ پھوجے نے اپنے مار کھائے ہوے اعضاء کا جائزہ انگڑائی لے کر کیا اور جواب دیا’’ اب کیا بتاؤں طاقت آگئی ہے چڑھا لو پھر مجھے اپنی ٹکٹکی پر۔‘‘

ایسے اور بھی کئی قصے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے مگر وہ بہت پُرلطف تھے۔ ملک حفیظ ہمارا ہم جماعت تھا، اُس کی زبان سے آپ سُنتے تو اور ہی مزا آتا۔

ایک دن پولیس کے دوسپاہی پھوجے کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے لے جارہے تھے۔ ضلع کچہری میں اُس کی نظر ملک حفیظ پر پڑی، جو معلوم نہیں کس کام سے وہاں آیا تھا۔ اُس کو دیکھتے ہی وہ پکارا۔ ’’ السلام علیکم ملک صاحب۔ ‘‘ ملک صاحب چونکے۔ پھوجا ہتھکڑیوں میں اُن کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔’’ ملک صاحب بہت اُداس ہوگیا ہوں،جی چاہتا ہے آپ بھی آجائیں میرے پاس۔ بس میرا نام لے دینا کافی ہے۔‘‘

ملک حفیظ نے جب یہ سُنا تو اُس کی رُوح قبض ہوگئی۔ پھوجے نے اُس کو ڈھارس دی۔ ’’ گھبراؤ نہیں ملک ، میں تو مذاق کر رہا ہوں۔ ویسے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔ ‘‘ اب آپ ہی بتائیے کہ وہ کس لائق تھا۔ ملک حفیظ گھبرا رہا تھا۔ کنی کتراکے بھاگنے ہی والا تھا کہ پھوجے نے کہا’’ بھئی اور تو ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا کہو تو تمہارے بدبودار کنویں کی گار نکلوادیں۔ ‘‘

ملک حفیظ ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ پھوجے کو اس کنوئیں سے کتنی نفرت تھی۔ اس کے پانی سے ایسی بساند آتی تھی جیسے مرنے ہوئے چوہے سے۔ معلوم نہیں لوگ اسے صاف کیوں نہیں کراتے تھے۔

ایک ہفتے کے بعد جیساکہ ملک حفیظ کا بیان ہے وہ باہر نہانے کے لیے نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو تین ٹوبے کنوئیں کی گندگی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بہت حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔ اُنھیں بلایا کس نے ہے؟ پڑوسیوں کا یہ خیال تھا کہ بڑے ملک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آگیا ہوگا کہ چلو کنوئیں کی صفائی ہو جائے، یہ لوگ بھی کیا یاد رکھیں گے لیکن جب اُنھیں معلوم ہوا کہ چھوٹے ملک کو اس بارے میں کچھ علم نہیں اور یہ کہ بڑے ملک صاحب تو شکار پر گئے ہوئے ہیں تو انھیں حیرت ہوئی۔ پولیس کے بے وردی سپاہی دیکھے تو معلوم ہوا کہ پھوجے حرامدے کی نشاندہی پر وہ کنویں میں سے بم نکال رہے ہیں۔

بہت دیر تک گندگی نکلتی رہی۔ پانی صاف شفاف ہو گیا مگر بم کیا ایک چھوٹا سا پٹاخہ بھی برآمد نہ ہوگا۔ پولیس بہت بھنائی چنانچہ پھوجے سے باز پُرس ہوئی۔ اُس نے مسکراکر تھانیدار سے کہا ’’ بھولے بادشاہو! ہمیں تو اپنے یار کا کنواں صاف کرانا تھا سو کرا لیا۔ ‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3