تحقیق و تنقید اور تنویر احمد علوی کی دو کتابیں


یہ بات اپنی اولین صورت میں جان لینے کی ضرورت ہے کہ ’تحقیق‘کا اشتقاق ’حق ‘ سے ہے۔اس ضمن میں ان تصورات کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے جو حق سے باطل کی طرف چلے جاتے ہیں اور محقق تلاش و جستجو اور فکر و فہم سے انھیں ثبوت فراہم کر کے دوبارہ حق کے زمرے میں لاتا ہے اور ایسے تصورات جدید ترین نہیں ہو سکتے چونکہ ان کے شاہد کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ جو حقیقت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ایسے موضوعات کو تحقیق طلب مو ضوع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے قدیم موضوعات کو تحقیق کی ذیل میں زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ بھی ایسے موضوعات جو چند غلط بیانیوں کی بنیاد پر حقیقت تسلیم کر لئے جاتے ہیں۔محقق کا کام ان مفروضات کی اپنے دلائل سے تردید کر نا ہوتا ہے۔لہٰذا ان دلائل کی تلاش میں اسے کئی صحراوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔اردو میں اولا قدیم موضوعات پر تحقیق کا کام زیادہ ضروری ہے کیوں کہ انھیں موضوعات میں آمیزش ابطال کی گنجائش ہے۔

80ء کی دہائی تک نئے نئے مخطوطات کو تلاش کر کے سامنے لانے کا رجحان بہت حد تک پایا جا تا تھا، بلکہ نئے موضوعات کو سامنے لانے کے لئے مخطوطات کو کھنگالنا ادبا، علمااپنا خاصہ سمجھتے تھے۔اس کے بعد اس رجحان میں کمی آنے لگی اور دھیرے دھیرے مخطوطات سے دلچسپی کا دور ختم ہونے لگا۔تحقیق تلاش و جستجو کا عمل ہے۔اس عمل میں محقق کو موضوع کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔سطحیت سے تحقیق کو اللہ واسطے کا بیر ہے۔اس لئے تحقیق میں کوئی بھی بات اس وقت تک اہم نہیں سمجھی جا سکتی جب تک محقق موضوع کا جائزہ ابتدا سے انتہا تک نہ لے لے۔اسی طرح تحقیق کی ضرورت کا احساس تحقیق کی طرف مائل کرتا ہے اور یہ احساس مطالعے کی کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔اس طرف ’گوپی چند نارنگ‘ نے اپنے مضمون ’واحد متکلم‘میں اشارہ کیا ہے۔فرماتےہیں:

میرے نزدیک تنقید و تحقیق میں سب سے زیادہ اہمیت تنقید و تحقیق کی ضرورت کے واضح احساس کی ہے۔

(صفحہ نمبر 398، کاغذ آتش زدہ: واحد متکلم، گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ پاوس،دہلی)

 تنویر احمد علوی کی شخصیت اور ان کے کارنامے دونوں اس طرح کے ہیں کہ تنقید اور تحقیق کی بساط کو ترتیب دینے میں ان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ نارنگ صاحب کی بات اور نئی نسل کے تنقیدی مزاج ان دونوں باتوں کو پیش نظر رکھ کر جب تنویر صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کروتو ان کے تحقیقی جوہر نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی دو کتابیں خاصی اہم ہیں “آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق اور “اصول تحقیق و ترتیب متن”۔

 آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق ان کی تصنیف نہیں ہے بلکہ انہوں نےاس میں کئی ایک اہم مصنفین کے مضامین کو جمع کر کے اس کو ترتیب دیا ہے۔ اس میں دو عدد مضامین ان کے بھی ہیں پر اس کتاب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ تنویر صاحب نے وہ مضامین جو عین ممکن تھا کہ اردو کے رسائل و جرائد کے اوراق میں کہیں گم ہو جاتے انہیں ایک جگہ کر جمع دیا ہے۔ ساتھ ہی اس تحقیق کے موضوع پر مختلف النوع مضامین کو اکھٹا کر کے ایک جامع نصاب ترتیب دے دیا ہے۔ اس کتاب میں جن تحقیقی موضوعات سے بحث کی گئی ہے اس کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

اصولیات تحقیق،مخطوطات، ادبی تحقیق کے بعض مسائل، ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ، بنیادی نسخہ، متن اور روایت متن۔ اس کے علاوہ جو مضامین ہیں ان کا تعلق تحقیقی تنقید سے ہے۔ جس میں خواجہ احمد فاروقی، مولوی حفیظ الرحمن واصف، نثار احمد فارقی، گوپی چند نارنگ، ظہیر احمد صدیقی، قمر رئیس، کمال احمد صدیقی، فضل الحق، عنوان چشتی، مظفر حنفی اور اسلم پرویز کے نام شامل ہیں۔ اس کتاب کی ایک سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلے تحقیق کی مبادیات کے متعلق مضامین دے دیئے ہیں اس کے بعد عملی تنقید کا نمونہ پیش کر کے اس بات کا درس دے دیا گیا ہے کہ ان مبادیات کو کس طر ح وجود کا حصہ بنا کر کسی بھی تنقیدی اور تحقیقی کام کو انجام دیا جا تا ہے۔

اسی طرح ان کی دوسری کتاب”اصول تحقیق و ترتیب متن” ہے، جسے اردو کے محققین نے بڑی اہمیت دی: بقول قمر رئیس:

ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی یہ تصنیف موضوع کی تفہیم و تعبیر اور مباحث کی جامعیت کے لحاظ سے بلا شبہ ایسی ہے جس پر اردو زبان بجا طور سے فخر کر سکتی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس موضوع پر نہ صرف فارسی میں بلکہ ہندوستان کی کسی بھی دوسری زبان میں بھی ایسی مستند اور معیاری کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی۔

(ص 10،11 ڈاکٹر قمر رئیس،پیش لفظ، اصول تحقیق و ترتیب متن)

متنی تنقید پر اردو میں یوں بھی بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں جب کہ مغربی ادب میں یہ ایک بڑا موضوع رہا ہے۔ اردو میں اس حوالے سے اب تک جو دو کتابیں قابل ذکر رہی ہیں وہ خلیق انجم کی متنی تنقید ہے اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی اصول تحقیق اور ترتیب متن۔ ان دونوں کتابوں کی یہ خاص بات ہے کہ یہ اپنے موضوع پر جتنے جامع انداز سے رقم کی گئی ہیں اتنے ہی خالص مشرقی مباحث کے تناظر میں اس کو پیش کرنے کی سعی کے التزام کو برتا گیا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کی کتاب میں جہاں اپنے ابتدائی اوراق میں اس بات پر بڑی جامع بحث ملتی ہے کہ اس فن کو اردو میں متنی تنقید کی اصطلاح سے کیوں کر تعبیر کیا جائے تو علوی صاحب کی کتاب میں اس بات پر خاص توجہ دی گئی ہے کہ مغرب کے مصنفین کی کتابوں سے جہاں تک ممکن ہو گریز کیا جائے اور مشرقی متنی روایات کو نظر میں رکھ کر کتاب ترتیب دی جائے۔ قمر رئیس نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی اس کتاب پر جو پیش لفظ لکھا ہے، اس میں انہوں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ:

ڈاکٹر علوی کی اس تصنیف کا سب سے نمایاں وصف میرے نزدیک یہی ہے کہ انھوں نے اس اچھوتے اور مشکل موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے کسی انگریزی یا غیر ملکی کتاب کو مشعل ہدایت نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کی تقلید کی، وسیع مطالعے اور آزادانہ غور و فکر کے سہارے انھوں نے اس موضوع کے تمام اہم گوشوں اور مباحث کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ متن کی ترتیب و تحقیق سے متعلق جملہ حقائق اور مسائل کو انھوں نے دس ابواب میں تقسیم کر کے علیحدہ عنوانات قائم کیے ہیں اور پھر ہر عنوان کے تحت دستیاب ہونے والے مواد کی مناسبت سے مباحث کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ کوئی پہلو چھوٹنے نہ پائے اور نہ ہی کوئی بحث تشنہ رہے۔ اس کے ساتھ ہی تکرار کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ وضاحت اور منطقی استدلال کے ساتھ ساتھ ایسی جامع اور سیر حاصل بحث اردو کی بہت کم کتابوں میں نظر آتی ہے۔

(ص7،8پیش لفظ، قمر رئیس، اصول تحقیق اور ترتیب متن )

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2