’دو نہیں، ایک پاکستان‘ کے لئے عمران خان کی جبری مشقت


ملک کی سات دہائیوں پر پھیلی تاریخ میں بار بار یہ غلطیاں کرنے کے باوجود اب بھی تبدیلی کا علم اٹھائے سیاست دان مخالفین سے جیلوں کو بھردینے کو ہی مسئلہ کا سب سے بڑا حل قرار دیتے ہیں۔ یہی نعرہ عمران خان کا بھی مرغوب نعرہ ہے۔ ان کے خیال میں اگر نواز شریف کے بعد شہباز شریف اور آصف زرداری بدعنوانی اور قانون شکنی کے الزامات میں ان کے راستے سے ہٹ جائیں تو انہیں اقتدار تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یعنی عمران خان دو دہائیوں کے سیاسی سفر کے دوران اپنے کسی نظریہ یا پالیسی کی بنیاد پر قد اونچا کرنے کی بجائے سیاسی اشرافیہ کے دوسرے عناصر کو دھکا دے کر اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی لئے انہیں جمہوری عمل کو لاحق سب سے مہلک خطرے یعنی انتخابی عمل میں ملک کی فوج اور عدالتوں کی مداخلت میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور وہ اس وقت تک ان قوتوں کے ہر ہتھکنڈے کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں جب تک وہ ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ ہموار کرنے کا سبب بن سکے۔

اقتدار حاصل کرنے کے اس جوش میں عمران خان کے لئے یہ سمجھنا ضروری نہیں ہے کہ آج وہ موجودہ سیاسی اشرافیہ کے خاتمہ کے لئے جو طریقہ اختیار کررہے ہیں، وہ پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے۔ اور جب عمران خان اس تخریبی عمل میں غیر مؤثر ہو جائیں گے جو اس وقت مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے خلاف شروع کیا گیا ہے تو ان کی نہ تو ضرورت رہے گی اور نہ ہی کوئی اہمیت ہو گی۔ عمران خان کو اس کا نقصان سیاسی قوت سے محرومی کی صورت میں ہی ہو گا لیکن ملک میں جمہوری عمل کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ کرنا بھی محال ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کرپشن کے خاتمہ اور نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے جو بساط عمران خان کے ذریعے بچھائی جارہی ہے اس کے ملبہ سے جمہوریت کا جنازہ ہی برآمد ہو سکتا ہے اور ملک ، پارلیمنٹ کو طاقور اور فعال بنانے کے راستے سے برسوں دور ہو جائے گا۔ اسی لئے 2018 کے انتخابات یہ بات طے کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے کہ ملک میں ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ بااختیار ہوگی یا یہ پارلیمنٹ فوج اور عدالتوں کے طے کردہ رہنما اصولوں کو ہی جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کی علامت سمجھے گی۔

جمہوری عمل میں منتخب ہونے والے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جو منصوبہ سامنے آرہا ہے اس میں معلق یا ہنگ پارلیمنٹ کی نوید سنائی جارہی ہے۔ یہ خبر بھی دی جارہی ہے کہ اگرانتخاب میں حسب منشا نتائج سامنے آنے کی امید نہ ہوئی تو یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے عبوری حکومت کی مدت میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ بنی گالہ کے باہر قطار لگائے الیکٹ ایبلز اور کرپشن کے خلاف عمران خان کی مہم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لوگ اس میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جس قوم کے لیڈر بھی اس عام رویہ کے حامل ہوں کہ جیلیں بھرنے اور پھانسیاں دینے سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں اور خود اپنی اصلاح سے غافل ہوں، وہاں ابھرتے سیاسی ستارے کا طواف کرنے والوں ہی کی اکثریت ہوتی ہے۔

آج لاہور میں ’ دو نہیں ایک پاکستان ۔ ہم سب کا پاکستان ‘ کا نعرہ لانچ کرتے ہوئے عمران خان نے چوہدری نثار علی خان کو ایک بار پھر تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دی تاکہ وہ مل کر مشترکہ مقصد کے لئے کام کرسکیں۔ یہی ’مشترکہ‘ مقصد حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ندیم افضل چن پچیس اپریل کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس مشترکہ کاوش کی کوکھ سے جو نیا پاکستان برآمد ہو گا وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن عام آدمی کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہو گا۔ اس صورت میں آج سے دس بیس برس بعد بھی لوگ ذاتی مفاد یقینی بنانے کے لئے امید وار کا انتخاب کرتے رہیں گے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے کسی ایک نکاتی ایجنڈے کی گونج سنائی دیتی رہے گی جس کی پنچ لائین’ جیلیں بھرو اور گردنیں اتارو‘ ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali