انگلینڈ اور آئرلینڈ جیسے مشکل دورے کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص سلیکشن


دورہِ ائرلینڈ اور انگلینڈ کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن سے ہر خاص و عام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مشکل دورے کی مشکل کنڈیشنز کے لئے چنے گئے پلیئنگ الیون پر کئی سوالات نے جنم لے لیا۔ قومی ٹیم کو اس مشکل دورے پر ایک ٹیسٹ میچ ائرلینڈ اور دو ٹیسٹ میچز کی سیریز انگلینڈ کے خلاف کھیلنا ہے۔ طویل مدت کے بعد یہ پہلا موقعہ ہوگا جب انگلش کنڈیشنز میں کھیلنے کے لئے تجربہ کار کھلاڑیوں یونس خان، مصباح الحق، وہاب ریاض اور یاسر شاہ کا ساتھ نہیں ہوگا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوجوان کھلاڑی قومی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کراپائیں گے؟

قومی ٹیم کی سلیکشن پر بہت سے سوال جنم لیتے ہیں کیونکہ انگلینڈ جیسی کنڈیشنز پر صرف نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے اور بولنگ کی بات کی جائے تو بولرز پاکستان صرف ایک ریگولر اسپنر شاداب خان کے ساتھ کھیلے گا۔ گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کے لئے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے فاسٹ بولر وہاب ریاض کو بھی بغیر کسی وجہ سے ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آتھر نے وہاب ریاض کو یہ کہہ کر ڈراپ کردیا کہ وہاب ریاض نے پاکستان کو گزشتہ تین سالوں میں کوئی بھی میچ نہیں جتوایا۔ ہیڈ کوچ اس سے قبل محمد حفیظ اور کامران اکمل کے بارے میں بیان دے چکے ہیں۔ کوچ کا حفیظ کے بارے میں کہنا تھا کہ حفیظ ٹیم کے لئے تب ہی کارگر ثابت ہوسکتے ہیں جب وہ بولنگ بھی کروائیں گے، بغیر بولنگ حفیظ کی قومی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔ کامران اکمل کے بارے میں مکی آرتھر کا بیان تھا کہ کامران جب تک فیلڈنگ ٹھیک نہیں کرسکتا ٹیم میں نہیں آسکتا اور سرفراز احمد کے ہوتے ہوئے کامران اکمل کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔

ٹیم سلیکشن سے متعلق ہیڈ کوچ کے بیان مضحکہ خیز تو ہیں ہی ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہیڈ کوچ نوجوان کھلاڑیوں سے انگلش کنڈیشنز کا مشکل امتحان پار کر پائیں گے۔ کیا شاداب خان جو کہ واحد ریگولر اسپنر کے طور پر ٹیم کے ہمراہ ہیں کیا وہ پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کر پائیں گے کیونکہ اس سے قبل شاداب خان نے ٹیسٹ میچ میں کوئی بھی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی۔

بیٹنگ کی بات کی جائے تو بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسے فواد عالم جیسے تجربہ کار بیٹسمن جہنوں نے ڈومسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگائے اور دورہِ انگلینڈ اور ائرلینڈ کے لگائے گئے کیمپ میں فٹنس ٹیسٹ نمایاں طور پر پاس کیا تو پھر کس چیز کو مدِنظر رکھ کر فواد کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ فواد عالم بائیں ہاتھ سے اسپن بولنگ بھی کرواتے ہیں جو دورہِ انگلینڈ اور ائرلینڈ کے لئے آل راؤنڈر کے طور پر استعمال کیے جاسکتے تھے۔ لیکن چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنے بھانجے امام الحق کو فواد عالم پر فوقیت دی جس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام الحق اوپننگ کرتے ہیں اور ٹیم کے ساتھ فخر زمان، اظہر علی، سمیع اسلم اور حارث سہیل جیسے اوپنرز موجود ہیں تو پھر اتنے اوپنرز کی موجودگی میں امام الحق کی کیا ضرورت پڑی اور کیا امام الحق کو اتنے اوپنرز کے ہوتے ہوئے کھیلنے کا موقع مل پائے گا؟ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو سلیکشن سمیت کئی سوالات ہیں جو کہ جن کا جواب ملنا نہایت ضروری ہے۔

فواد عالم کو ٹیم میں جگہ نا دینے اور امام الحق کو شامل کرنے میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ فواد سے اچھے اور بھی کھلاڑی موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ تین سالوں میں بہتریں کارکردگی دکھائی ہے۔ امام الحق کی سلیکشن پر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ امام الحق کی سلیکشن میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کی مشاورت اور منظوری سے امام الحق کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔

سلیکشن کے معاملے پر سوشل میڈیا میں بھی عوام کی طرف سے انضمام الحق اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ساتھ فواد عالم کے لئے عوام کی جانب سے کی گئی مہم جسٹس فار فواد بھی نمبر ون ٹرینڈ بنارہا۔ کرکٹ کے معاملات قومی اسمبلی اسلام آباد بھی جاپہنچے جہاں قومی اسمبلی بین الصوبائی کمیٹی نے نجم سیٹھی کو طلب کیا اور سخت سوالات کیئے۔ فواد عالم کی سلیکشن پر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ وہ ٹیم سلکیشن میں مداخلت نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پی سی بی چیئرمین ہوکر نجم سیٹھی ٹیم کی سلیکشن میں مداخلت نہیں کرتے اور بیانات دینے سے گریز کرتے ہیں تو پھر ہیڈ کوچ مکی آتھر کے بیانات پر پی سی بی چپ کیوں ہے؟ اور اگر دورہِ ائر لینڈ اور انگلینڈ میں اگر قومی ٹیم ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).