عمرے کے نام پر معصوم لوگوں سے فراڈ


آؤ مدینے چلیں، اسی مہینے چلیں!

دوماہ پہلے خاکسار اپنے آبائی شہرگیا ہوا تھا۔ وہاں ایک آدمی نے قسطوں پہ عمرہ کرانے کا پیکیج شروع کیا ہوا ہے(موٹر سائیکل بھی انعام رکھا ہے)۔ اس نے خاکسار کو مدعو کیا تھا۔ کچھ واقف کار نوجوان علماء بھی مجلس میں موجود تھے جو مختلف عمرہ کمپنیز کے ساتھ بطور کمیشن ایجنٹ کام کرتے ہیں۔ خاکسار نے لگی لپٹی بغیر عرض کیا کہ آپ لوگ قاری حسین سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔ اس لئے کہ قاری حسین، ایک گھر کے صرف ایک کماؤ پوت کو اڑا دیتا تھا مگر آپ تو گھر کے سرپرست سے ہی اس کی عمر بھر کی جمع پونجی نکلوا لیتے ہو حالانکہ آپ لوگ عالم دین ہو۔ آپ کو بخوبی پتہ ہے کہ عمرہ کرنا نہ تو فرض ہے نہ واجب۔ ایک نفل عبادت ہے جو صاحب استطاعت کے لئے بھی کرنا ضروری نہیں ہے۔ مگر فقط ایک ہزار روپے کمیشن کی خاطر، آپ معصوم لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہو کہ ”ابھی تک سرکار کے دربار نہیں گئے ہو؟ “، ” فلاں بڑا خوش قسمت ہے کہ اس کا بلاوا آگیا“۔ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ بیچارے قرض لےکر، بچیوں کا جہیز بیچ کر، عمرہ کو جاتے ہیں۔ کیا عمرہ پہ جانا حضور کا بلاوا ہے؟ یہ جو صحابہ نے ہمیشہ کے لئے مکہ و مدینہ چھوڑا تھا تو کیا یہ حضور کی طرف سے دیس نکالا تھا؟

عمرہ پیسے والوں کی نفل عبادت ہے۔ اسلام میں ایسی کوئی عبادت نہیں جو مالدار کرسکیں اور اس کا ایک متبادل خدا نے غریبوں کے لئے نہ رکھا ہو۔ پس اپنے گھر پہ اشراق کے دونفل بھی عمرہ کے برابر ہیں۔ اپنے والد سے محبت تو قبول حج کے مصداق ہے۔

خدا کے رسول کا اصل مشن، انسانیت کی فلاح کا پروگرام تھا۔ یہ جو رمضان کے عمرہ پر لوگ ٹوٹئے پڑ رہے ہیں یہ تو ایک دل شکستہ صحابیہ کی تسلی کے لئے فرمایا تھا۔ اس کو حضور کے ہمراہ عمرہ نہ کرنے کا غم کھائے جارہا تھا تو حضور نے فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا گویا میرے ساتھ عمرہ کرنے کے برابر ہے۔ رسول کا سارا غم وفکر، دکھی انسانیت کے درد کا مداوا کرنا تھا۔ لوگ حضور کے پاس جانے کو لاکھوں لگاتے ہیں۔ رسول کہتا ہے کہ سچا اور امانت دار تاجر، آخرت میں میرے ساتھ ہوگا۔ یعنی گاؤں گوٹھ میں بیٹھا دکاندار، امانت سے تجارت کررہا تو جنت میں حضور کا پڑوسی ہوگا چاہے زندگی بھر کعبہ نہ دیکھا ہو۔

بس یہی عرض کرنا تھا کہ خدا کے دین کو معمولی کمیشن کے لئے نہ بیچا جائے۔ علماء کا کام ہے کہ لوگوں کو ” الاہم فالاہم“ کا اصول سمجھا ئیں کہ جو حقوق ادا کرنا ضروری ہیں، انہیں پورا کرنے پر ہی رسول خوش ہوگا۔

مولانا عمر پالن پوری مرحوم کا ایک جملہ یاد آگیا، اسی پہ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ فرمایا کرتے:
فکرِنبی جس کے سینے میں ہے۔ جہاں بھی رہے، وہ مدینے میں ہے۔
فکرِنبی جس کے سینے میں نہیں۔ وہ مدینے میں رہ کر مدینے میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2