کابل دھماکہ ۔۔۔ امن کے لئے نئے اندیشے


\"mujahid

کابل میں آج صبح ہونے والے دہشت گرد حملے میں 24 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ خبروں کے مطابق دوپہر تک سیکورٹی فورسز علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کو مارنے یا پکڑنے کی کوشش کررہی تھیں۔ یہ حملہ پاکستان کی اس وارننگ کے بعد ہؤا ہے کہ طالبان کو جنگ بند کرکے امن مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔

اطلاعات کے مطابق حملہ کا آغاز پل محمد ود خان کے علاقے میں خود کش حملوں سے ہؤا۔ اس کے بعد چند حملہ آوروں نے سیکورٹی فورسز کا مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ اس دو بدو جنگ میں متعد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ابھی اس بات کی تصدیق ممکن نہیں ہے کہ مرنے والوں میں سیکورٹی فورسز، شہریوں اور حملہ آوروں کی کیا تعداد ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ابھی تک فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے حملہ آور نیشنل سیکورٹی فورسز کے ہیڈ کوارٹرز میں گھس گئے اور انہوں نے شدید جانی نقصان پہنچایا۔ تاہم اس دعویٰ کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ طالبان نے گزشتہ ہفتے کے دوران موسم بہار حملوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان حملوں کو طالبان کے بانی امیر ملا عمر کے نام پر ’آپریش عمری‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کابل پر آج ہونے والا حملہ اس اعلان کے بعد پہلا حملہ ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان نے بھی اس حملہ کو شدید الفاظ میں مسترد کیا ہے۔ اس حملہ کے نتیجہ میں چہار ملکی گروپ کی طرف سے امن مذاکرات کی کوششوں کے بارے میں نئے شبہات پیدا ہوں گے۔

کل اسلام آباد کے سرکاری ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستانی حکومت نے طالبان کو نئے حملوں سے باز رہنے اور امن مذاکرات شروع کرنے کا پیغام بھجوایا ہے۔ اس پیغام میں طالبان پر واضح کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس تجویز پر عمل نہ کیا تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل پاکستان یہ اشارے دے چکا ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی جاری رہی تو اس کی افواج افغان فوج کے ساتھ طالبان کے خلاف جنگ میں تعاون کریں گی۔ اگرچہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے طالبان پر کوئی خاص اثر و رسوخ حاصل نہیں ہے لیکن متعدد اہم طالبان لیڈروں کے خاندان پاکستانی علاقوں میں آباد ہیں اور پاکستان انہیں سہولتیں فراہم کرتا رہا ہے۔ ان میں ان طالبان لیڈروں کے پاکستان میں سفر کی سہولتیں بھی شامل ہیں۔

طالبان بھی ملا عمر کے انتقال کے بعد قیادت کے سوال پر انتشار اور باہمی مقابلے بازی کا شکار رہے ہیں۔ کئی گروہ پوری طالبان تحریک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ذیادہ شدت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکوں کے نمائیندے گزشتہ سال دسمبر سے طالبان کو مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی کوششوں کے باوجود طالبان نے ابھی تک اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی پس منظر میں پاکستان نے طالبان کو متنبہ کیا ہے۔

آج کا حملہ کابل کے قلب میں واقع سرکاری عمارات پر کیا گیا ہے ۔ ہلاک ہونے والوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے بھی اس کی شدت اور اہمیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ طالبان کو جنگ سے باز رکھنے کے لئے پاکستان کس حد تک عملی اقدامات کرتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور دنیا کی اہم قوتوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی روشنی میں پاکستان سے کسی واضح اور مؤثر حکمت عملی کی توقع کی جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments