تحفے دینے سے محبت بڑھتی نہیں، گھٹتی ہے


تحفے تحائف دینا ہماری شاندار مذہبی اور ثقافتی روایت ہے۔ اسی روایت کو لے کر ہم اب تک نبھاتے آ رہے ہیں کہ تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں مگر کیا واقعی محبت بڑھتی ہے؟ جب یہ سوال ہم نے خود سے کیا تو انتہائی مایوسی ہوئی۔۔۔ پچھلے چند سالوں میں دوست، احباب اور رشتہ داروں کی جانب سے جتنے بھی تحائف ہمیں ملے سب جوں کے توں ایک الماری میں بند ہیں۔۔۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی تحفہ پسند نہیں آ یا کوئی ماپ میں پورا نہیں آیا کوئی معیار پہ، کسی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ سو اٹھا کر الماری میں بند کر دیئے۔۔ کیا یہ پیسے کا زیاں نہیں کہ جب ہم تحائف وصول کرتے ہیں تو جوابی طور پہ لوٹاتے بھی ہیں اور سامنے والے کے ساتھ بھی یہی معاملہ یعنی ناپسندیدگی کی صورتحال رہتی ہے۔۔۔۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیئے ایک سروے کرنے کا سوچا جس کا منطقی نتیجہ بڑا مایوس کن رہا۔ تحائف کا لین دین عام طور پہ خواتین کے ذمہ ہوتا ہے لہٰذہ ہم نے سوال جواب کے لیئے کچھ گھریلو خواتین کا ہی انتخاب کیا آ یئے آپ کو بھی شامل کر تے ہیں۔

ایک انتہائی قریبی لکھاری دوست سے جب ہم نے سوال کیا کہ کیا وہ تحائف کے تبادلے کو پسند کرتی ہیں یا مطمئن ہیں تو ان کا منہ بن گیا۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت یوں دی کہ جب سے سوشل میڈیا جائن کیا ہے بہت سے لوگوں کی جانب سے تحائف کی پیش کش کی جاتی ہے جو کہ ان کی بے پناہ عقیدت اور محبت کی دلیل تھی۔۔۔ جبکہ میں ذاتی طور پہ پسند نہیں کرتی اور مگر بعض خواتین بری طرح سے ایموشنلی بلیک میل کر کے یا کسی اور بہانے سے ایڈریس مانگ کر تحائف بھجوا چکی ہیں جو کہ میرے معیار اور پسند یا ضرورت کے مطابق بھی نہیں تھے میں نے انہیں ایک الماری میں بند کر دیا۔ اتنے سارے لوگوں کو جوابی تحائف بھجوانے کی میرا بجٹ اجازت نہیں دیتا۔ سو ان میں سے بیشتر خواتین اب مجھ سے ناراض یا کھچی کھچی سی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ عقیدت اور محبت ایک تحفے کی رسیدگی میں بہہ چکی ہے۔ ان کھنچنے والوں سے گزارش ہے کہ میں نے کبھی تحفہ کی وصولی یا تبادلے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ برعکس اس کے جن خواتین نے مجھے کبھی تحائف نہیں دیئے۔ ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات چل رہے ہیں۔ تو کیا ضروری تھا تحائف بھجوانا۔۔۔۔۔

یہ عنبرین ہیں۔ ان سے جب ہم نے تحائف کے تبادلے پر سوال کیا تو انہوں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔ ان کے کہنے کے مطابق انکی سّسرالی فیملی کے زیادہ تر لوگ کافی برسوں سے ابراڈ ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور انکی جانب سے جب بھی تحفہ دیاگیا انتہائی سستا اور دو یا پانچ ریال یا پھر وہاں لگنے والی سیلوں میں سے خرید کر بھرتی کا احسان جڑ دیا گیا۔ اس سے زیادہ معیاری چیزیں تو پاکستان میں ملتی ہیں۔ عنبرین نے منہ بناتے، ناک چڑھاتے ہوئے جواب دیا۔

شہلا سے ہماری بہت اچھی سلام دعا ہے۔ دو گھر چھوڑ کر رہتی ہیں۔ چار ہفتے پہلے ان کے بھائی بھابی عرصہ دو سال بعد وطن آ رہے تھے۔ شہلا اپنی والدہ کے اصرار پر ملنے گئیں۔ بھابھی نے کہا کہ تم نے آ نے میں دیر کر دی، سب تحائف تو ہم بانٹ چکے ہیں اور کسی خیرات کی طرح سوٹ کیس کے کونے جھاڑ جھپاڑ کر ایک لپ اسٹک اور نیل پالش کا پیکٹ نکال کر بچیوں کو دیا۔ جو کہ بچیوں نے دیکھتے ہی ریجکٹ کر دیا کہ یہ تو کھلونا لپ اسٹک اور نیل انیمل ہیں۔ ممانی کو کیا لگتا ہے ہم ابھی تک گڑیوں سے کھیلتے ہیں۔ مارے رنج کے شہلا نے مذکورہ آ ئٹم ہمارے سامنے پٹخ دیں۔ اتنا اہم اور قریبی رشتہ ہے جو بھابھی نے کونے کھدرے جھاڑ کر نمٹانے کی کوشش کی۔ جب کہ ہم ہمیشہ ہی بہت اچھا پروٹوکول دیتے ہیں ان کی آ مد پہ بچیوں کو اپنا کمرہ خالی کرنا پڑتا ہے جو کہ وہ بخوشی کر دیتی تھیں اور خالی ہاتھ تو ہم نے بھی کبھی جانے نہیں دیا۔

انجم سے ہماری اچھی دوستی ہے اور ہمارے بچے بھی کئی سال سےایک دوسرے کے دوست ہیں تو آ نا جانا لگا رہتا ہے۔ ہم نے بے تکلفی ہونے کے سبب انہیں بھی سروے میں شامل کرنا چاہا۔ موضوع سن کر انکے منہ میں کونین گھل گئی۔ شکایتی لہجے میں انجم نے بتایا کہ ابراڈ سے آ نے والے جب تحائف دیتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں کو انتہائی کم تر سمجھتے ہوئے اپنے معیار کے مطابق نہیں بلکہ غریب رشتہ داروں کا اسٹیٹس سامنے رکھ کر بچی کھچی اشیاء سے نپٹا دیتے ہیں جبکہ ہماری طرف سے تحفے لینے کی نیت یا مطالبہ بھی نہیں ہوتا۔ اور وہی غریب رشتہ دار انکی تواضع اور تحائف دینے میں انکے اسٹیٹس کو ملحوظ رکھ کر زیر بار ہو جاتے ہیں۔

فائزہ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بہت اچھی پوسٹ پر فائز ہیں انہوں نے بتایا کہ میری اپنی دیورانی سے بہت اچھی دوستی ہے۔ جن دنوں میرے دیور بے روزگار تھے میں اکثر اس کے اور اپنے لئے ایک جیسی چیز خرید لیتی کیونکہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے تو مجھے خود اکیلی کے لیئے پہننا اوڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا اکثر مواقع پر بچوں کے لیئے بھی کچھ نا کچھ خرید لیتی تھی۔

جس کا دیورانی کو احساس بھی رہتا تھا۔ مگر اچانک دیور کا انگلینڈ سے ویزہ آ گیا۔۔۔ فیملی کی رہائش اور کچھ مزید پر کشش پیکچز کے ساتھ۔ چناچہ وہ راہئ ملک فرہنگ ہوئے۔ دنوں میں ا نکے حالات بدل گئے۔ دوسال بعد ان کا پاکستان کا وزٹ تھا بااصرار کئی بار پوچھا بھابھی کیا لاؤں آ پ کے لئے۔۔۔ مجبوراً ایک نفیس سے لیدر ہینڈ بیگ کی فرمائش کر دی جو فائزہ کی بہن کو کسی سسرالی رشتہ دار نے انگلینڈ سے گفٹ کیا تھا۔ دیورانی نے وٹس ایپ پر تصویریں تک منگوا لیں اور جب تحفہ دینے کا وقت آ یا تو ایک لوکل بیگ سے یہ کہہ کر نمٹا دیا کہ پرچیزنگ کا وقت نہیں ملا تھا۔ آئندہ کبھی سہی۔ ا پنا بھرم ٹوٹنے پر فائزہ کو کافی ملال ہوا سو فائزہ نے ہتک سی محسوس کرتے ہوئے بیگ اٹھا کر الماری میں ٹھونس دیا۔ اور آ ئیندہ کسی سے بھی تحائف کے لین دین کی توبہ کر لی۔

آخر میں ساجدہ آ پا سے بھی ملتے ہوئے چلتے ہیں۔ تجربہ کار ہیں دو پوتیوں اور تین نواسوں کی گرینی ہیں۔۔۔۔ ہم نے ادھر ادھر کی بہت سی باتیں کی ان سے۔ زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر واضح اور تجربہ کارانہ رائے رکھتی ہیں۔ جب تحائف کے لین دین پر بات ہوئی تو انہیں اس بات پہ شدت سے متفق پایا کہ تحائف دینا یا لینا نری روپے کی بربادی ہے۔ ہمارے گرینڈ بچوں کو جتنے کپڑے اقربا اور دوست احباب کی جانب سے ملے سب ضائع ہوگئے ہمارے بچوں نے اپنی اولادوں کے لیئے ڈھیروں شاپنگ پہلے ہی سے کر رکھی تھی۔ اور کون ہے جو ایسا نہیں کرتا اپنے بچوں کو اس امید پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا کہ انہیں تحائف ملنے پر کچھ بھی پہنا دیا جائے گا۔ جو کپڑے تحائف میں دیئے گئے باری آ نے تک رکھے رکھے ہی چھوٹے ہوگئے۔ بہتر ہوتا کہ بچوں کو کچھ نقد دے دیا جاتا تاکہ اپنی ضرورت اور سہولت کے حساب سے کچھ بھی خرید لیا جاتا۔ میں ہمیشہ نقد دینے کو ترجیح دیتی ہوں۔

یوں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فی زمانہ تحائف کا تبادلہ رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ بہتر ہے کہ نقد دے دیا جائے پیسے کسی نا کسی طرح کام آ ہی جاتے ہیں دوسرا آ پ کو نقدی کا اندازہ رہتا ہے۔ تیسرا چیزیں( تحائف ) ضائع نہیں ہوتیں۔۔۔ کیا خیال ہے احباب۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).