سیاست میں فوج کا کردار اور عمران خان


پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے گزشتہ اتوار کو لاہور میں منعقد کئے جانے والے جلسہ کے بعد ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپنی سیاسی حکمت عملی اور ان اصولوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے جن پر عمل کرتے ہوئے وہ ملک میں عوام دوست انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ اور لاہور ریلی میں پیش کئے گئے 11 نکات کے مطابق سب کے لئے مساوی تعلیم، قابل احترام صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ ملک کو قرضوں کے بار سے نجات دلانے کے لئے سرگرم عمل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم لاہور کی تقریر کی طرح جیو ٹیلی وییژن کو دیئے گئے انٹرویو میں بھی عمران خان کو اس مشکل کا سامنا رہا ہے کہ وہ اپنی سیاست کو بعض اصولوں اور حقائق کے ساتھ پیش کریں یا نواز شریف کے خلاف تیز لب و لہجہ اختیار کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کریں کہ ان کے تمام مسائل کی بنیاد شریف خاندان ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے، اس کے ساتھ ہی عمران خان کی الجھن بڑھتی جارہی ہے کیوں کہ ان کے پاس نہ تو ملک کو درپیش مسائل کی واضح تصویر ہے اور نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کے لئے قابل عمل اور حقیقی سیاسی پروگرام پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان جیسے کثیر الآبادی ملک میں جہاں وسائل کم اور ضرورتیں بے شمار ہوں، عوام کی محرومیوں کی نشاندہی کردینا تو سہل ہے لیکن ان مسائل کے پائدار اور مناسب حل کے لئے منصوبہ بندی آسان نہیں ہوتی۔ اسی مشکل سے نمٹنے کے لئے عمران خان نعروں نما وعدوں اور نواز شریف کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کر کے اپنا سیاسی ایجنڈا سامنے لاتے ہیں جس کا بنیادی نکتہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ’اگر مجھے وزیر اعظم بنا دیا جائے تو تمام مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے‘۔ چونکہ سیاسی رہنماؤں اور فوجی آمروں کو بھگتتے ہوئے اس ملک کے عوام یہ جان چکے ہیں کہ قومی مسائل کا حل چٹکیاں بجانے یا کسی ایک لیڈر کو اقتدار سونپنے سے ممکن نہیں، اس لئے انہیں اس قسم کے سطحی اور غیر منطقی بیانات سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔

شاید اسی مشکل سے نکلنے کے لئے اب عمران خان نے نواز شریف کی طرف سے انہیں ’فوج کا لاڈلا‘ قرار دینے کے سیاسی وار کا جواب دینے کے لئے ایک بار پھر 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے حق میں دھاندلی کا قصہ چھیڑا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فوج نے مسلم لیگ (ن) کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ دعویٰ کرتے ہی وہ سجدہ استغفار کرنے میں بھی دیر نہیں کرتے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھ کر، ملک کی بقا کے لئے مضبوط فوج کی ضرورت پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ سوال یہ نہیں ہے کہ ملک کو مضبوط فوج کی ضرورت ہے یا نہیں۔ حتیٰ کہ یہ سوال بھی انتخاب سے عین پہلے اہمیت کا حامل نہیں بن سکا کہ ملک کے دفاع پر اٹھنے والے مصارف میں کمی کی جائے تاکہ عوام کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وسائل فراہم ہو سکیں۔ گو کہ اس اہم موضوع پر بحث ہونی چاہئے۔ عوام کا یہ حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے ووٹ لے کر ان کی تقدیر بدلنے کی دعوے دار سیاسی جماعتیں فوج کے ادارے کے استحکام کے علاوہ، اسے کنٹرول کرنے کے لئے کون سے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ عمران خان سمیت سب سیاست دانوں کے لئے چونکہ ملک میں جمہوری روایت اور عمل کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کی اصلاح سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ کس طرح انتخاب جیت کر اقتدار سنبھالا جائے، اس لئے مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کرنے اور آئی ایس آئی کو خصوصی منصوبہ کے لئے کثیر رقم فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، پیپلز پارٹی فوج کے تیار کردہ سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی اور تحریک انصاف کے چئیرمین یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف انتہائی جمہوریت پسند اور غیر جانبدار ہیں۔ عمران خان کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ توصیف اس لحاظ سے مضحکہ خیز ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں کبھی بھی کسی آرمی چیف پر اس وقت تک نکتہ چینی نہیں کی گئی جب تک وہ فوج کی کمان سنبھالے رہا۔ البتہ کسی بھی جنرل کی ریٹائرمنٹ کے بعد الزامات کی فہرستیں آزاد صحافیوں اور جمہوریت نواز سیاست دانوں کے نوک زبان ہوتی ہیں۔

عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج ایک اہم ادارہ ہے جو مشکلات میں گھرے پاکستان کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ بالکل درست ہے۔ لیکن اس دعوے کے ساتھ ہی اس مسئلہ کا جواب دینے کی بھی ضرورت ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات سے کیسے اور کیوں کر علیحدہ کیا جائے۔ اس اہم اور بنیادی سوال کا جواب دینے کی بجائے عمران خان بھی دیگر سیاسی لیڈروں کی طرح فوج کی خدمات کے بیان اور اس کے سربراہ کی توصیف سے آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ عمران خان کی اس بات کو قبول کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں اس نے نواز شریف یا دیگر پارٹیوں کو جیتنے کے لئے مدد فراہم کی لیکن اس الزام کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کے گولے برساتے ہوئے عمران خان کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر جب ملک کے فوجی ادارے سیاسی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے انتخابی عمل میں مداخلت کرتے ہیں تو اس کی روک تھام کے لئے وہ بطور سیاسی لیڈر کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا وہ برسر اقتدار آنے کے بعد فوج کے ان شعبوں اور افراد کی نشاندہی کریں گے اور ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کی جائے گی جو ماضی میں انتخابات میں مداخلت کے ذریعے کسی خاص پارٹی یا گروہ کو کامیاب کرواتے رہے ہیں تاکہ فوج کے مخصوص سیاسی ایجنڈے کو مکمل کیاجا سکے۔ جب عمران خان اس سوال کا دو ٹوک اور واضح جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے، اس اہم سوال کو نظر انداز کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں تو اس الزام سے کیسے جان چھڑا سکتے ہیں کہ اس وقت ان کی پارٹی انہی اداروں کی ’لاڈلی‘ ہے جو ماضی میں بقول ان کے نواز لیگ کو جتوانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی اس سوال کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہو گا بصورت دیگر جمہوریت اور سیاسی تطہیر کے بارے میں ان کے بلند بانگ دعوے بے بنیاد اور ناقابل اعتبار رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو میں عمران خان نے انتخابات کے التوا اور آزاد امیدواروں کی کامیابی کے امکان کو تسلیم کرکے دراصل اپنی اس سیاسی شکست کو تسلیم کرلیا ہے کہ ملک کا سیاسی عمل اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے مقررہ ایجنڈے کے مطابق ہی جاری و ساری ہے اور حکمران جماعت سمیت دیگر جماعتیں بھی صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں دوسروں سے بہتر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتوں اور اس کے لیڈروں کے نزدیک اقتدار کا حصول ہی جمہوریت کی بنیاد بنا رہے گا، اس وقت تک ملک میں خفیہ ہاتھ ہی سیاسی فیصلے کریں گے اور سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر ہی جمہوریت کا نام ’روشن‘ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتے رہیں گے۔

سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو دست و گریبان ہونے کی بجائے کسی اصولی سیاسی ایجنڈے اور آئینی پیکیج پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں مل جائیں تو غیبی ہاتھ اور سو موٹو کا ہتھوڑا جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوسکتا ہے۔ ورنہ سب اسی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے جمہوریت اور سیاست کو گالی بنانے میں حصہ دار بنے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali