ابوالکلام آزاد: حالیہ بحث سے متعلق چند گذارشات


\"Hafiz_Jawad_Hafeez\"

محترم عابد بخاری صاحب نے اپنے کالم ’ابوالکلام آزاد، قائد اعظم اور پاکستان‘ میں آزاد سے متعلق کچھ سوالات قائم کیے ہیں۔ اگرچہ مخاطب اول تو شکیل چودھری صاحب ہیں تاہم حسن بحث کی خاطر چند قابل غور باتیں ہماری جانب سے بھی قارئیں کے لیے پیش خدمت ہیں۔

۔1۔عابد صاحب نے سوال اٹھایا کہ کیا ابو الکلام آزاد نے منظر نامہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی؟

ایک ضمنی سی بات ادب کے ساتھ عرض ہے کہ یہی سوال قائد اعظم کے متعلق بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ پاکستان بننے کے ستر سال بعد کے دگرگوں حالات کے پیش نظر اس سوال کی شدت و اہمیت اور بھی محسوس ہوتی ہے۔ آخر کچھ تو وجہ ہے کہ نہ صرف نیشنل لیول کے ٹی وی چینلز ابوالکلام کے نقطہ نظر کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں پیش کرتے ہیں بلکہ ڈاکٹر قدیر خان صاحب جیسے لوگ بھی ابوالکلام کی مدح سرائی پر مجبور نظر آتے ہیں۔ (چاہے بعد میں وضاحتیں ہی کرنی پڑیں)۔

۔2۔ کچھ مقامات پر مکالمہ شدید خلط مبحث کا شکار ہو گیا ہے ۔مثلاً عابد صاحب فرماتے ہیں کہ ’کیا آزاد اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے؟ اگر نہیں تو اس تناقصِ فکری پر آپ کیا کہتے ہیں؟ وہ کون سا اسلام چاہتے تھے؟ ‘

اس بات کی وضاحت درکار ہے کہ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا ’قائد اعظم اور پاکستان‘ سے کیا تعلق ہے۔ اس سوال کا جواب ہمارے علم میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

۔3۔ فرمایا گیا کہ ’یہ درست ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ابوالکلام آزاد کا اندازہ بھی درست ہو گیا لیکن 23 مارچ 1940 کی قرارداد کی سچائی بدستور قائم ہے۔ 16دسمبر 1971 کو بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے لیکن اس سب کے باوجود کئی بنگالی دانشور آج بھی کیوں کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ ختم نہیں ہوا؟ وہ کیوں کہتے ہیں کہ بنگالیوں نے بنگلہ دیش بنا لیا۔ ہندوستان میں واپس نہیں گئے اور آج بھی کچھ بنگالی دانشوروں کو کیوں یقین ہے کہ ایک دن مغربی بنگال بھی بنگلہ دیش کا حصہ بن جائے گا؟‘

سلیس اردو میں لکھا جانے تو یہ قدرے طویل اقتباس یوں ہوگا کہ آپ نے ملک بنایا، توڑا اور ایک لمحہ رکے بغیر ایک نیا ملک بنانے چل پڑے۔

یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ’یہ درست ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ابوالکلام آزاد کااندازہ بھی درست ہو گیا‘ کچھ توقف کرنا چاہیے۔ ہم اگر اپنے دل و دماغ کو کچھ دیر کے لیے مطالعہ پاکستان کی درسی کتب سے آزاد کر دیں تو ہو سکتا ہے کچھ نیا سوچنے سمجھنے کا موقع ملے اور اگر کہیں بھول چوک ہوئی ہے تو اس کی تصحیح کا سامان ہو سکے۔

تاہم بجائے اس کے کہ بحیثیت قوم اپنا محاسبہ کیا جانے ہم اگلے ہی لمحے ’قائد بنگال‘ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوۓ۔ باہم متضاد دلائل سے جب بھی سامنا ہو تو فرائیڈ کی وہ کہاوت یاد آ جاتی ہے جو ہمسائے سے ادھار لی جانے والی ایک چینک کے بارے میں ہے۔

میں نے تم سے چینک ادھار لی ہی نہیں۔
جب میں نے تمہاری چینک واپس کی تو وہ صحیح سلامت تھی۔
میں نے جب تم سے چینک ادھار لی تو وہ پہلے سے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔

بقول ژیژک کے اس طرح کی منطق وہ ہی چیز ثابت کردیتی ہے جس سے یہ انکاری ہوتی ہے۔ یعنی کہ میں نے تمہیں ایک ٹوٹی ہوئی چینک واپس کی۔

۔4۔ جناب کا فرما نا ہے ’آزاد کی یہ پیش گوئی بھی آپ کو یاد ہو گی کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے‘۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ بھارت اپنے اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑوں کا خوفناک حد تک شکار نہیں ہے؟ آزاد کے خوابوں کا مرکز شاید بھارت نہیں مریخ تھا کیونکہ ہندستان کے 14 صوبوں میں تو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔‘

اس قسم کا استدلال پیش کرتے ہوۓ ہمیں نجانے اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ یہ طرز استدلال دنیا میں ہماری جگ ہسائی کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ او بھائی ’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘۔

ہم نے ملک لیا اور پچیس سال کے عرصے میں ابوالکلام آزاد کی کم از کم ایک پیش گوئی کو جس کا اعتراف آپ نے بھی کیا ہے، سچ کر دکھایا۔ مولانا آزاد کی باقی ماندہ پیشگوئیوں کے لیے دعا ہے کہ وہ غلط ثابت ہوں۔ رہی دشمن ملک کی بات تو بھائی وہ جتنے بھی اندرونی خلفشار سے دوچار ہے اور آپ کے بقول اس کی 14 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں، لکن پھر ہبی وہ بدستور ویسے کا ویسے ہی سالم کھڑا ہے۔ ہم اگر اپنا ملک سنوارنے سے زیادہ دوسرے ملک ٹوٹنے کے خواب دیکھنے کی خواہش ترک کر دیں (کم از کم کچھ عرصہ کے لیے) تو شاید کچھ افاقہ ہو۔

۔5۔ اب آگے سنیے۔ سید سردار احمد پیرزادہ صاحب کی تحریر سے ایک حوالہ دیا گیا جس کی تفصیل کے لیے اصل مضمون پڑھا جا سکتا ہے میں یہاں صرف اس دیے گئے حوالے کا حاصل کلام عرض کروں گا۔ آپ کا سوال ہے ’ کیا تنقید نگار (شکیل چودھری ) پیرزادہ صاحب کے ان الفاظ سے بھی اتفاق کرتے ہوئے سیکولر مودی کو موذی سمجھتے ہیں؟‘

اچھا بھی چلیں مودی نہ صرف موذی بلکہ ’موذی مودی بر وزن یہودی‘ بھی سمجھ لیا۔ اب اس سے سارے منظر نامے میں کیا فرق پڑ گیا۔ بھارت پھر بھی مستقبل قریب میں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہوتا نظر آ رہا ہے اور ہم سے ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ ہماری ’اسلامی سٹیٹ‘ کی ’اسلامیت‘ کا درجہ کہاں سے شروع ہو اور کہاں ختم ہونا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو پورا ’ ٹوپی برقع‘ پہننا چاہیے یا منہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ ریاست کی داڑھی ایک بالشت ہو یا خشخشی بھی چلے گی۔ ریاست نے شلوار پہننی ہے یا مغربی پینٹ کی گنجائش بھی ہونی چاہیے۔ لیکن ایک بات میں واضح کرتا چلوں تاکہ کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے کہ ’کافروں اور مشرکوں کو کامیابی صرف اس دنیا میں ہی نصیب ہو سکتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی کامیابی کا یقین آخرت پر ہی رکھنا چاہیے۔ اگر غیر مسلم ممالک دنیوی لحاظ سے ترقی کی دوڑ میں آگے نظر آ تے ہیں تو اس پر ہمیں زیادہ کڑھنے کی ضرورت نہیں‘۔

۔6۔ اسی ابوالکلام آزاد جس کے نقطہ نظر اور پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ نے کالم پہ کالم لکھ مارے، آخر میں پناہ ملی تو پھر انہی کی دعا میں جو انہوں نے پاکستان کے بارے میں نیک خواہشات کی صورت میں کی۔ آپ ہی کا لکھا دوہرا دیتا ہوں۔ ابوالکلام آزاد کہا کرتے تھے کہ ’پاکستان وجود میں آ گیا ہے تو اب اسے باقی رکھنا چاہیے، اس کا بگڑ جانا سارے عالم اسلام کے لیے شکست کے برابر ہوگا‘۔

ابوالکلام جسا آدمی اگر پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہے تو بھائی ہماری تو یہ ’سر زمین‘ ہے۔ ہم بھلا اس کی مخالفت کیوں کریں گے۔ ہاں ہمارے اور آپ کے نکتہ نظر میں اختلاف ضرور ہے اوررہے گا جب تک کہ بنیادی باتوں کا تسلی بخش جواب نہ مل جاتے

آخر میں عرض ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ طرز استدلال ایسا اپنایا جاتے کہ کسی کتاب کے حوالے کی ضرورت نہ پڑے اور آپ کے ’دھاک بٹھانے یا نہ بٹھانے‘ جسے طعنوں سے بچا جا سکے۔

مضمون کی طوالت کے پیش نظر آپ کے سارے سوالوں کے جواب ایک ہی کالم میں نہیں دیے جا سکتے لیکن یقیناً صحت مند مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments