بلاتخصیص احتساب کے لئے یکساں سزا ضروری


\"edit\"پاناما پیپرز المعروف پاناما لیکس، وزیراعظم پر الزامات اور پھر کرپشن کے خلاف آرمی چیف کا اعلان جہاد اور سب سے بڑھ کر اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی ادارے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کے عزم کا یوں مظاہرہ کہ جنرل کے عہدے پر فائز افسروں سمیت کئی اعلیٰ عہدیداروں کو بدعنوانی کے الزام میں ملازمت سے فارغ کر دیا۔ ایسی باتیں اس ملک میں اس ترتیب اور تسلسل سے کم ہی ہوتی ہیں۔ لیکن دنیا میں حالات و واقعات کی رفتار اتنی تیزہے کہ اب کچھ بھی ممکن ہے۔ البتہ اس ترتیب میں یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ ملک میں سب سے طاقتور شخص کہلانے والے فوج کے سربراہ بھی کرپشن کی بات کرتے ہیں تو اپنی اصلاح سے کام کا آغاز کر کے مثال قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خدائی فوجدار بن کر دوسروں کی درستی کے لئے آمادہ عمل نہیں ہوتے۔ یہی اصول کی فتح اور یہی جمہوریت کا راستہ ہے۔

تاہم اس راستے کو اختیار کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے خود اپنے ادارے میں اہم افسروں کو ملازمت سے فارغ کر کے جو اقدام کیا ہے، اس کی حسن و خوبی بیان کرنے اور ملک کی سیاسی اور انتظامی صورتحال پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ فوج جیسے منظم اور مضبوط ادارے میں نگرانی کے عمل میں ایسی کون سی کمی ہے جس کی وجہ سے اتنے اعلیٰ عہدیدار بدنظمی اور بدعنوانی میں ملوث ہونے میں کامیاب ہوئے، لیکن ان کا سراغ لگانے میں کئی برس صرف ہوئے۔ کیونکہ بلوچستان میں فوج کے ادارے فرنٹیئر کورپس میں بدعنوانی کے بارے میں دبی دبی باتیں 2007 سے سامنے آتی رہی ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری بعض معاملات میں ایف سی کے سربراہ کو طلب کرتے ہوئے ان کے رول اور کارکردگی کے بارے میں سوال بھی اٹھاتے رہے تھے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں متعین فوجی افسروں کی بداعمالیوں کے بارے میں تقریباً ایک دہائی کے بعد معلومات، تحقیقات اور پھر کارروائی دیکھنے میں آئی ہے۔ فوج اس ملک کا سب سے معتبر، طاقتور اور موثر ادارہ ہے۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ دہشت گردی کی صورت حال میں ملک کے اندر بھی اس ادارے کو اہم کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بوجوہ سول ادارے مجروح اور اختیار محدود ہوا ہے۔ اس وجہ سے بھی سول معاملات میں فوج کا رول روز بروز بڑھتا رہا ہے۔ اسی لئے کراچی اور بلوچستان میں برس ہا برس سے فوج کے اداروں، رینجرز اور ایف سی کو امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

فوج پر عوام کے اعتماد کی بنیادی وجہ اس کی طاقت، اثر انگیزی، تنظیم اور دیانت داری کی شہرت ہے۔ اگرچہ ماضی میں چار فوجی سربراہوں نے اپنے آئینی فرض کو نظر انداز کرتے ہوئے، ملک کی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا ہے اور ملک پر غیر آئینی اور غیر اخلاقی طور پر طویل عرصہ حکومت کی اور معاملات کو خراب کرنے میں رول بھی ادا کیا۔ سول معاملات میں فوج کی اس مداخلت کے قومی امور پر جو اثرات مرتب ہوئے، ان سے یہاں بحث مطلوب نہیں ہے۔ لیکن اس مداخلت نے فوج کے ادارے کے نظم و ضبط اور دیانتدارانہ طرز عمل کی شہرت کو بھی متاثر کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے موجودہ اقدام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ماضی قریب میں بھی اعلیٰ فوجی افسروں پر اس طرح کے الزامات عائد ہوئے اور بعض کو خود فوج کے نظام میں سزائیں بھی دی گئیں۔ مسلح افواج سے متعلق بعض اعلیٰ افسروں نے نیب سے بھی سزائیں پائیں۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ سیاسی اور سویلین معاملات میں مداخلت سے فوج پر بطور ادارہ بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے عہدیدار جب بے پناہ اختیارات کے ساتھ سول معاملات کنٹرول کرنے پر متعین ہوتے ہیں اور اس رول میں حاصل ہونے والے بے شمار امکانات کا سامنا کرتے ہیں تو بعض لوگ ضرور کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے۔ لیکن فوج جیسے ادارے میں ایسے لوگوں کا پکڑا نہ جانا یا طویل عرصہ تک نظر انداز ہونا فوج کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

اس حوالے سے آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ فوج کو سختی سے سول معاملات میں استعمال کرنا بند کیا جائے۔ تاہم اس مقصد کے لئے سول اداروں کو مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا پڑے گا۔ فی الوقت تو یہ صورت حال ہے کہ جنوبی پنجاب میں ڈاکوﺅں اور پولیس اور بااثر لوگوں کے پروردہ مجرموں کے ایک گروہ پر قابو پانے کے لئے بھی فوج کو طلب کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں نے صرف مخصوص علاقوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا نہ ہی وہ ایک خاص علاقے تک محدود ہیں کہ فوج ان کا محاصرہ کر کے، انہیں ختم کرنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ انجام دے سکے۔ یہ لوگ اور اس قسم کی کارروائیوں کی وجہ بننے والا مزاج معاشرے کے ہر طبقے اور ملک کے ہر علاقے میں سرایت کر چکا ہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے اور فوج و رینجرز کو اس کارروائی میں استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن فوج کی قیادت کو بھی سمجھنا ہو گا کہ اسے اپنے ادارے کے اندر نگرانی اور کنٹرول کا نظام زیادہ موثر اور بہتر کرنا ہو گا۔ دوسرے سول اداروں کو مستحکم کرنا بھی بالواسطہ طور سے فوج کے فائدے میں ہے۔ اس طرح ایک تو فوج پر سے امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری کا بوجھ کم ہو گا اور وہ سرحدوں کی حفاظت کے پیشہ وارانہ فرض کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر سکے گی۔ اسی طریقہ سے فوج کو بطور ادارہ کرپشن اور حریص لوگوں کی دست و برد سے بچایا جا سکے گا۔ اس لئے اس مزاج کا خاتمہ ضروری ہے کہ اگر کوئی سول حکومت ملک میں پولیس یا کوئی دوسرا عسکری وسکیورٹی ادارہ استوار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ فوج کے مقابلے میں متوازی فورس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوج اور سویلین حکمران جتنی جلدی اس حوالے سے حکمت عملی پر اتفاق کر کے عملی اقدامات کا آغاز کر سکیں، ملک و قوم کے علاوہ فوج کے استحکام کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہو گا۔

اس حوالے سے دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ فوج کے جو لوگ بدعنوانی میں ملوث پائے جاتے ہیں انہیں سخت سزائیں دینے کا نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تو ایسے لوگوں کو جبری ریٹائرمنٹ، سہولتوں سے محرومی یا مراعات سے مکمل انکار کے علاوہ چند برس کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ایک زیادہ سخت سزا رینک واپس لینے کی بھی موجود ہے۔ لیکن اس کا استعمال بہت کم معاملات میں دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ جس طرح سیاست میں یہ اصول مروج ہے کہ منتخب لیڈروں کو جوابدہی اور احتساب کے کڑے پیمانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر بدعنوانی کے الزام میں عام شہری کو اس وقت تک اپنی سہولتوں اور عہدے سے محروم نہیں کیا جاتا جب تک ان کے خلاف الزام ثابت نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس مہذب جمہوری معاشروں میں یہ طریقہ موجود ہے کہ الزام لگنے کی صورت میں متعلقہ سیاستدان اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپنے خلاف الزامات کو غلط ثابت کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں یہ اخلاقی جمہوری روایت موجود نہیں ہے لیکن جمہوری عمل مستحکم ہونے اور ترقی پانے کی صورت میں سیاستدانوں کو بالآخر یہ قبول کرنا ہو گا کہ انہیں چونکہ عوام بھروسے اور اعتماد کے قابل سمجھتے ہوئے پوزیشن کے لئے منتخب کرتے ہیں، اس لئے وہ صرف الزامات کو مسترد کر کے، کام کرتے رہنے پر اصرار نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کسی سیاسی عہدے پر فائز کسی بھی شخص پر اپنا نام صاف کروانے کی ذمہ داری عام شہری کے مقابلے میں زیادہ عائد ہوتی ہے۔ کوئی سیاستدان یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ الزام لگانے والا اسے ثابت کرے۔

بعینہ فوج ایک طاقتور اور موثر ادارہ ہے۔ اس کی یہ حیثیت صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے اگر یہ ادارہ کسی بے قاعدگی اور مالی بدعنوانی میں ملوث افسروں کو مثالی سزائیں دینے کی روایت کا آغاز کرے گا۔ زیادہ قوت اور اختیار کا لازمی جزو ہے کہ متعلقہ شخص یا ادارہ ذمہ داری اور جوابدہی کا زیادہ بوجھ بھی قبول کرے۔ اس لئے اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر سیاستدان پر الزام عائد یا ثابت ہو تو وہ بدنامی بھی برداشت کرے اور اسے جیل کی سزا بھی دی جائے۔ لیکن فوج کے افسر اسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے بعد صرف عہدے و مراعات سے محروم ہو کر احتساب کی تکمیل کر لیں۔ مالی طور سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے ہر شخص کو خواہ وہ فوج کا افسر ہو یا سیاستدان ہو یا سول بیورو کریسی کا حصہ ہو، یکساں طریقے سے ملک کے احتسابی عدالتی نظام کا سامنا کرتے ہوئے سزا پانی چاہئے۔ فوج جب کسی افسر کو بدعنوانی کی بنیاد پر عہدے سے فارغ کرتی ہے یا رینک واپس لیتی ہے تو یہ اس فوج کا حلف توڑنے اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے کی سزا ہے۔ بدعنوانی کی سزا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے متعلقہ افسر کو کسی بھی عام ملزم کی طرح اسی عدالت اور نظام میں پیش کرنا چاہئے جو ایسے بدعنوانوں کے لئے ملک میں اتفاق رائے سے بنایا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں احتساب بیورو یا دیگر سویلین اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اصولی طور پر جنرل راحیل شریف نے جن افسروں کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا ہے، احتساب بیورو کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے اور فوج کو ساری معلومات اس ادارے کو فراہم کر کے تعاون کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے اگر بعض قواعد و ضوابط فوج کے ایسے افسروں کو استثنیٰ فراہم کرتے ہیں تو ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسی صورت میں بلاتخصیص احتساب کا عمل شروع ہو سکے گا جس کا اعلان آرمی چیف نے منگل کو واشگاف الفاظ میں کیا تھا۔ بلاتخصیص احتساب بلا امتیاز اور یکساں سزا متعارف کروائے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔

پس نوشت: یہ مضمون لکھا جا چکا تھا کہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو عدالتی کمیشن بنانے کے لئے خط لکھنے کا اعلان کیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے خاص طور سے قوم سے خطاب کیا جو بجائے خود وقت کا ضیاع تھا۔ اس تقریر میں اس اعلان کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پوری تقریر میں خود کوپاکباز ثابت کرتے ہوئے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس تقریر میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جس پر مکمل اور تفصیلی تبصرے کی ضرورت ہو۔ اس لئے تازہ ترین وقوعہ پر تبصرہ کی کوشش، خواہش اور روایت کے باوجود، اس تقریر کو موضوع بحث بنانا ضروری نہیں سمجھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments