عمران خان کے نام کھلا خط


محترم عمران خان صاحب

میں کچھ تلخ باتیں آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں جو بخدا میرے ذاتی مفادات سے کسی طور بھی منسلک نہیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر چکی ہے۔  کس و ناکس آپ کے سایہ عاطفت میں آنے کے لئیے بے تاب ہے اور اس افراتفری اور نفسا نفسی میں پارٹی کا بنیادی اور نظریاتی کارکن وسوسوں کا شکار ہے کیونکہ وہ روایتی طور پر الیکٹ ایبل نہیں ہے اور پارٹی کے اندر موجود موہڈا مار گروپ اگلی صفوں پر قابض ہو چکا ہے۔ تبدیلی کا خواب دیکھنے والے، آپ کے جاں نثار خوفزدہ ہیں کہ ان کا محبوب قائد ایک ان دیکھے حصار میں محصور ہو کر رہ گیا ہے جہاں غریب اور مخلص کارکنوں کا داخلہ منع ہے۔

جو لوگ 1996ء، 2011 یا 2013 سے جہد مسلسل میں مصروف رہے اور اسٹیٹس کو کی طاقتوں کو بے جگری سے للکارتے رہے انہیں اب اسی اسٹیٹس کو (Status quo) کے گماشتوں کے حق میں نعرے لگانے کی ترغیب دی جاتی ہے تو ان خواب زادوں کی امیدوں کے محل مسمار ہو جاتے ہیں کہ ہماری تو اساس ہی ان ازلی ابدی موقع پرستوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے نظام کہنہ و بوسیدہ سے چھٹکارا پانے کی سعی تھی۔

قائد محترم جو لوگ صبح شام آپ کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہو رہے ہیں وہ انقلاب کی نہیں، رد انقلاب کی فوج ظفر موج ہیں۔ انہی کے باپ دادا فیروز خان نون، سکندر مرزا،  ایوب خان ، یحیی خان ، ضیاء الحق اور پھر بھٹو شہید اور بالآخر میاں نواز شریف کے در اقتدار کے دریوزہ گر، گداگر اور حاشیہ نشین رہے اور ان کے عہد زوال میں شریک غم تو کیا ہونا تھا، کوئی دلاسہ یا دو بول ہمدردی کے بھی نہ بھیج سکے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی پر ان کے سب وزیر مشیر سنگین سناٹے میں مصلحت پسندی کا شکار رہے، ماسوائے ان چند کے جو 70 ء سے ان کے ساتھی تھے یا پھر بنیادی کارکن چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔

کیا آج پھر یہ سوال نہیں بنتا کہ اب کیونکر یہ جاگیر دار، صنعت کار اور سدابہار مقتدر موقع پرست اپنے طبقاتی مفادات سے بالا تر ہو کر اپنے صدیوں پرانے مفادات پر مبنی نظام کو لپیٹ دیں گے اور ایک انقلابی نظام کی داغ بیل ڈال دیں گے جو ان کے پیوستہ مفادات کے لئیے خود کشی کے مترادف ہوگا۔

میں بذات خود 2013 میں  کا ٹکٹ ہولڈر امیدوارتھا اور اب بھی درخواست گزار ہوں، حلفاً کہتا ہوں مجھے ٹکٹ نہ دیا جائے لیکن کسی پرانے نظریاتی کارکن کو دے دیں بجائے ایسے مفاد پرستوں کے، کہ پاکستان تحریک انصاف جن کی پانچویں یا چھٹی سیاسی جماعت ہے۔ آپ بھٹو شھید کے 1970 کے امیدواروں کی فہرست دیکھیئے۔ متوسط اور غریب لوگ منتخب ہوئے اور کوئی ایک بھی کرپٹ نہ نکلا اور بالآخر وہی تادم مرگ ان کے ہمنوا اور جاں نثار رہے ۔

میرے قائد، آپ ایک امید کا چراغ لے کے نکلے تھے، خدا کے لئے وہ روشنی اور وہ چراغ بجھنے سے بچا لیں۔ ہم  گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکلنے کے متمنی ہیں۔ ہم خواب زادوں کے خواب چکنا چور ہونے سے بچا لیں۔ دھرتی ماں مزید زخموں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

قائد محترم آپ کے پاس ایک ایک حلقے میں 3،3  جب کہ بعض حلقوں میں چار چار الیکٹ ایبل درخواست گزار ہیں۔ یقینی طور پر کسی ایک ہی کو ٹکٹ  دیں گے تو اگلے ہی روز کئی ٹکٹ سے محروم افراد خم ٹھونک کر آپ کے امیدوار کو شکست دینے کے لئیے اکٹھ کر چکے ہوں گے اور پارٹی کے خلاف تبرے بازی کریں گے۔

ایک اشتہار میں ایک بچہ کہا کرتا ہے کہ “دادی اماں یہ آپ سے ملنے نہیں، آپ کا  کھانا کھانے آئے ہیں۔” مجھے معاف رکھئے گا حضور یہ اقتدار کا دستر خوان شیئر کرنے آئے ہیں۔ ان کو تو انقلاب اور تبدیلی کے ہجے بھی  نہیں آتے۔ ان کو شاید کوئی غلط فہمی ہے کہ ہماری پشت پناہ اب  اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن اول تو میرا خیال ہے کہ ایسا شاید نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو ان کو تاریخ سے یہ سبق پڑھوانا ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ  کبھی بھی  کسی کی مستقل اور مخلص دوست نہیں ہوتی  چونکہ وہ محض اپنے ریاستی مفاد ات کی محافظ ہوتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا کہ بقول فیض

ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یونہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی
پس تحریر۔ (میری ٹکٹ کی درخواست کو خارج فرما دیا جائے  تا کہ اس تحریر کا منفی تاثر نہ لیا جا سکے)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).