دانش برائے فروخت


\"moazzamآج کل کمرشل ازم کا دور ہے. ہر چیز کمرشل ہو چکی ہے. تعلیم، صحت، سیاست، ذرائع ابلاغ حتی کہ حکومت بھی…. جدید ذرائع ابلاغ کا ایک ثمرہ کمرشل دانشوری بھی ہے. جی ہاں اب تو دانشوری بھی کمرشل ہو چکی ہے. کمرشل ازم کا ایک تقاضا یہ ہے کہ گاہک کو وہ چیز دی جائے جو وہ چاہتا ہے چاہے وہ اس کے لئے صحیح ہو یا غلط. کسٹمر ہر حال میں خوش رہنا چاہئے.

ٹی وی پر بیٹھے بھاری معاوضوں والے دانشور قوم کا دن رات تیہ پانچہ کرتے نظر آتے ہیں. جن کا پہلا مطمح نظر اونچی ریٹنگ حاصل کرنا ہے. اس مقصد کے حصول کے لئے پھر جو بھی کرنا پڑے. کیا زمانہ آ گیا ہے کہ اب دانشور ہائر کیے جاتے ہیں. ایک چینل سے دوسرے اور دوسرے اخبار سے تیسرے تک کیریر کی منزلیں طے کرتے نظر آتے ہیں. ہر کوئی بڑے بڑے انکشافات کی تلاش میں ہے. سنسنی پھیلانا، گڑھے مردے اکھاڑنا اور دور کی کوڑی لانا دانشوری قرار پائی ہے. زرا ہٹ کے بات کرنا اور اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لئے لمبی لمبی چھوڑنا جدید دانشوری ہے خواہ قوم میں اس سے کتنا ہی فساد پھیلے.

مسئلہ یہ ہے کہ درجنوں یا شاید سینکڑوں ٹی وی چینل میدان میں آ چکے ہیں. ہر کسی کو دانشور چاھئے. دفاعی دانشور، سیاسی دانشور، سماجی دانشور، مذہبی دانشور، کھلاڑی دانشور…. اور کچھ نہ بن سکے تو سول سوسائیٹی کا نمائندہ ہی سہی. مذہب اور کرکٹ پر تو خیر سے پوری قوم ہی دانشور ہے. اب اتنے دانشور کہاں سے آئیں. یونیورسٹیوں کو چاھئے کہ اب ایک شعبہ دانشوران و ماہرین بھی شروع کر دیں جہاں دن رات ماہرین فن بن بن کر نکل رہے ہوں. یقین مانیں بہت سکوپ ہے. اکثر ٹی وی پر بیٹھے دانشوروں کی دانشوری اندرون لاہور تھڑے پر بیٹھے سیاسی و سماجی ماہرین سے زیادہ نہیں ہوتی. بس فرق یہ ہے کہ وہ بیچارے سول سوسائیٹی کے نمائندے نہیں بن سکتے کہ بیرون ملک فنڈنگ سے محروم ہیں.

دیکھا جائے تو مسلم تاریخ میں دانشوری کبھی بھی پیشہ نہیں رہی. امام ابوحنیفہ ہوں یا امام شافعی امام ابن تیمیہ ہوں یا امام رازی و غزالی. کس نے اپنا علم دوسروں تک پہنچانے کا معاوضہ طلب کیا تھا. مسلم دانشوروں کے علاوہ بھی کیا ارسطو، افلاطون، یا کنفیوشس نے اپنا علم یا سوچ پیسے لے کر دوسروں تک پہنچائی تھی. یہ سب جدید مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے کہ علم و حکمت کی بات بھی پیسے لے کر کہی جائے. ہمارے دین میں تو علم کا پھیلانا ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جو آپ کا علم ہے وہ آپ کا فرض ہے کہ دوسرے کو پہنچائیں جب اس کو ضرورت ہو.

اسی طرح اکثر ٹاک شوز میں اینکر کے پاس وقت کم اور دانشور زیادہ موجود ہوتے ہیں تب صورت حال کافی دلچسپ ہو جاتی ہے. موضوع ایسا چھیڑ رکھا ہوتا ہے کہ گھنٹوں بھی بولتے رہو تو نہ ختم ہو. اس پر مستزاد اینکر کی بریکوں والی مجبوری. جب اصل بات شروع ہونے لگتی ہے تو بریک آجاتی ہے. اب یہ بھی ضروری ہے کہ اصل مقصد تو تجارت ہے نہ کہ عوام کو آگاہی یا شعور مہیا کرنا اب ایسے ٹاک شوز میں موضوع پر ناظر کو کیا حاصل ہو گا یہ سمجھنا کچھ ذیادہ مشکل نہیں. محض کنفیوژن… اور اسی کنفیوژن کا نتیجہ سوشل میڈیا پر طوفان کی صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ جس دانشور کی بات بیچ میں رہ جائے اس کے پیروکار پھر سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال لیتے ہیں اور پھر دما دم مست قلندر…..

اور اقبال نے ایسے دانشوروں کے بارے میں کیا کہا تھا وہ بھی سن لیجئے

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

معظم معین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

معظم معین

لاہور سے تعلق رکھنے والے معظم معین پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ہلکے پھلکے موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں

moazzam-moin has 4 posts and counting.See all posts by moazzam-moin

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments