بیوٹی پارلر اور بڈھے ٹھرکیوں کا نیا دھندا


اس سے آگے کی خبر راقم الحروف کے پاس ہے۔ میں نے جب یہ سنا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس شخص کے اس کھیل کی اصل اور جڑ تک مجھے پہنچنا ہے۔ میں نے اُن صاحب کا نمبر لیا اور رابطہ کیا۔ مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس میں مجھے کتنا نیچے گرنا پڑا وہ ایک زخم ہے جو میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ مجھے اس بندے کی ہر لغو گفتگو بڑے تحمل سے سننا پڑی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شائد میں اسے مار ہی ڈالتی جو جو اس نے مجھے کہا۔ مگر مجھے یہ آدمی کی کارستانی معلوم نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے اس شیطان کا اعتماد جیتا۔ اس کے ساتھ فون پر اور ملاقات کر کے تفصیلات حاصل کیں۔ اور صرف ایک سوال کیا کہ آپ نے اس کے لئے ٹیچرز کو کیوں چنا۔ یہ کام تو کوئی بھی سیکس ورکر زیادہ بہتر کر سکتی تھی آپ کے لئے۔ جواب نے مجھے لرزا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ہوشربا کمسن لڑکیاں چاہئیں۔ جن لڑکیوں کے ذہن ابھی کچے ہوں گے اُن میں تجسس ہوگا اور وہ آسان شکار بھی ہو ں گی۔ پڑھے لکھے طبقے کی لڑکیوں کے لئے استانیاں اور دیہاتوں کے لئے لیڈی ہیلتھ وزیٹر یہ کام کرتی ہیں ہمارے لئے۔ پھر انہوں نے بچیوں اور مساج کروانے والی خواتین کی نفسیات بتائی کہ مساج 3000 سے 5000 تک ہوتا ہے۔ یہ معمولی رقم نہیں ہے اس رقم کی ادائیگی کرنے والی اکثریت خواتین جنسی تشنگی کا شکار ہوتی ہیں۔ آپ نے باتوں باتوں میں پتہ لگانا ہے اور اپنا ہدف بنانا ہے۔ رہی بات بچیوں کی تو جوانی کی حدود پر اُن کے پیر رکھتے ہی اُن کے اندر جو نفسیانی تبدیلی آتی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر ایک ٹیچر کے ذریعے استعمال کرنا نہایت آسان ہے۔ ایک آدھ بار پارلر دیکھنے بلائیں اور بہلا کر کسی کے مساج پر لگا دیں اور اُن کے جذبات کو ہوا دیں۔ پھر وہ آپ کے اشاروں پر ناچیں گی۔ صرف دو گھنٹوں کے لئے آپ کے پاس آ جایا کریں، کافی ہے۔ ایک بار کا چسکا لگا تو چھوٹے گا نہیں۔

جن اصحاب نے اس ٹیلی فونک طمانیت کا مزا لینا تھا اُن سب حضرات کی عمریں 65 سے تجاوز کر چکی ہیں اور مجھے بتایا گیا کہ وہ جسمانی طور پرعورت سے لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں۔ بس ذہنی آسودگی کی تلاش ہے جو اُن کو مطمئن کر دے۔ اور کوئی بدنامی کسی فریق کی نہ ہو گی۔

اس مافیا کا حصہ بننے میں مجھے بالکل گبھراہٹ نہیں ہوئی کیونکہ میں بہت پرجوش تھی کہ مجھے اس ریکٹ کو بے نقاب کرنا ہے اس تحریر کو لکھتے وقت میں ان سب بیوروکریٹس ، بزنس پرسن اور کلیدی شخص تک پہنچ چکی ہوں مگر میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ 75 سالہ بوڑھا صحافی جو 8 منزلہ عمارت میں بیٹھ کر ملک کا نامور میڈیا ٹائیکون کہلاتا ہے۔ میں اس کا نام کیسے لوں۔ جس ملک میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانا قانون خریدنے والوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، وہاں میرے کسی بیان کی کیا حیثیت ہو گی کسی عدالت میں۔

بندی اس وقت تمام راز جاننے کے بعد بھی اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ کھلے عام مجرموں کا نام بھی نہیں لے پا رہی۔ کچھ ریکارڈ ہیں میرے پاس مگر خود چونکہ سچ کی تلاش میں اس ٹولے کا حصہ بنی تھی، سو صرف اتنا کر سکتی ہوں کہ لکھ کر اس ریکٹ کے بارے میں بتاﺅں گی کہ سکولوں میں پڑھنے والی بچیوں کے والدین چوکنا ہو جائیں۔ میری اس تحریر کو دیہاتوں میں کسی نے نہیں پڑھنا۔ اس لئے اس میں سخت تشویش میں مبتلا ہوں کہ بہتر مستقبل کی متلاشی معصوم کم تعلیم یافتہ لڑکیوں کا کیا ہوگا؟

میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ بیوٹی پارلرز پر سخت چیک ہونا چاہیے۔ تاکہ معصوم بچیوں کا استحصال نہ ہو اور خواتین میں جنسی جرائم و امراض میں اضافہ نہ ہو۔ ہم اس چیز کے قطعی متحمل نہیں کہ ہماری خواتین اور بچیاں جنسی مریض بن جائیں ہمارا گھریلو نظام جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے، کہیں ختم ہی نہ ہو جائے۔ کمسن لڑکیاں اس نقطے پر لانے کا پلان ہے کہ وہ بڑی عمر کی خواتین کو جنسی خدمات دیں اور ان سے یہ خدمت حاصل بھی کریں۔ میرا قلم اُن الفاظ کو لکھنے سے معذور ہے جو طریقہ جسموں کے ساتھ کھیلنے کا مجھے بتایا گیا۔

وہ صاحب ابھی تو لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے چند بزرگوں کی لسٹ مجھے تھما گئے ہیں۔ یہ سب شیطان اپنے چہروں پر مسیحا کا ماسک چڑھائے ہوے ہیں۔ اور میری مالی معاونت کرنا چاہتے ہیں اور جلدی مساج کرنے والی لڑکیوں کی بھرتی اصرار کر رہے ہیں۔ یہ سب جاننے کے بعد اپنی بے بسی پر شدید غصہ آرہا ہے۔ میں سب نام جانتی ہوں۔ ان کے کارنامے جانتی ہوں مگر میرے پاس طاقت نہیں۔ اس اخلاقی زبوں حالی کا شکار وہ بابے تو مر جائیں گے پاﺅں قبر میں ہیں سب کے۔ مگر وہ شریف زادیوں کو کس راہ پر لگا کر مریں گے۔ میں کیسے جھنجھوڑوں مردہ ضمیروں کو؟ میں اس تباہی کو کیسے روکوں؟ کون سنے گا میری؟ کون کیفرکردار تک پہنچائے گا اِن جنسی درندوں کوجو اپنی لذت کی خاطر عوام کے سچے خادمین اساتذہ اور شعبہ طب سے وابستہ عورتوں کا اپنے مذموم مقاصد کے لئے لالچ دے کر استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ کیا میں ان بڈھے ٹھرکیوں کی سیاست دانوں کی طرح صرف مذمت کروں؟ میں اونچی کرسی پر بیٹھے میڈیا گروپ کے مالک کو محض لفظوں سے کیسے سنگسار کروں؟ کوئی حل سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سب سے اہم سوال ہے کہ سمال انڈسٹریز نے جو قرضے جاری کئے ہیں وہ اس مذموم کھیل کا دانستہ حصہ ہیں یا محض اتفاق۔

20/05/2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2