گھریلو ملازمین، چپڑاسی اور حقوق


پاکستان میں پوری دنیا کی طرح تیزی سے بڑھتی ٹیکنالوجی کا آج کل بہت چرچا ہے لیکن حقوق العباد کے معاملے میں ہم آج بھی دور جاہلیت جیسا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یوں تو ہم مسلمان رنگ اور نسل کے معاملات میں انصاف اور برابری کے بہت دعوے کرتے ہیں مگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان دعووں کی حیثیت فقط اس لفظ تک ہی محدود ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے گھر ہوں یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یادینی مراکز، ایک مخصوص طبقے کواس بھرپور طریقے سے نظرانداز کیا جاتا ہےکہ گویا وہ انسان ہی نہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کاموں کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے جنہیں کرنا امیر، مُعتبر لوگ اورکچھ مسلمان اخلاقی روح سے مناسب نہیں سمجھتے۔ ان لوگوں پر عموما کوئی غور بھی نہیں کرتا کیونکہ باقی انسان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام کرنا ہی ان کا فرض ہے یہ لوگ آپ کو مختلف گھروں، دفاتر، محلوں اور سڑکوں کا کوڑا کرکٹ صاف کرتے اور یہ ہی کام دھندہ کر کے اپنی روزی کماتے دکھائی دیں گے۔

پیدائش سے ہی انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص طبقے سے کم تر ہیں اور یہ ہی تصور ان کی باقی زندگی میں ہر قدم پر ان کے آڑے آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ترقی یعنی کہ پروموشن دینا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہم مہذب اور صاف سُتھرے لوگ یوں تو صفائی سُتھرائی کی بہت باتیں کرتے ہیں لیکن اپنی گندگی خود صاف کرنا انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں جس کے لیے ان لوگوں کو نوکریوں پر رکھا جاتا ہے کہ یہ اسکولوں اور دفاتر میں رکھی گندگی سے بھری ٹوکریاں خالی کریں۔

دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ہر ادارے کا عظیم طبقہ بھی انہیں نظر انداز کرتا ہے۔ اسکول میں بیٹھے دانشور ان کے حقوق پر کبھی درس نہیں دیتے، گورنمنٹ میں بیٹھے بیوروکریٹس کبھی ان کے حقوق کے لیے کوئی پالیسی ترتیب نہیں کرتے، مذہب کے رکھوالے بھی ان کے ساتھ نا انصافی کرنے پر کوئی فتوی نہیں لگاتے، عدالتوں میں بیٹھے جج اور قانون دان ان کے کیس تو لڑتے ہیں پر ان کے تحفظ کے لیے آواز بلند نہیں کرتے اور تو اور صحافی جو عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں وہ بھی ان کی طرف دیکھ کر یہ فرض بھول جاتے ہیں۔

یہ لوگ چہرے سے اس قدر نااُمید ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی اُمید نہ ہو۔ اکثر کچھ مہذب لوگوں کے نازیبا رویے بھی ان کی احساس کمتری کا باعث بنتے ہیں۔ افسوس کی حد یہ کہ ان کی عمر کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ چاہے دفتروں اور گھروں میں کام کرنے والے مزدور ہوں یا کھُلے آسمان تلے تپتی دھوپ میں کام کرتے ہوئے مزدور، دونوں کو ہی انسان نہیں سمجھا جاتا۔ جنس کی بات کی جائے تو حالیہ اور کئی برسوں سے چلے آ رہے گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات سے تو آپ سب واقف ہوں گے ہی۔ ملازم عورت یا لڑکی تو یہ تجربہ مزید خوفناک بن جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں آپ کو صرف زہنی ہراسگی ہی نہیں برداشت کرنا پڑتی بلکہ جسمانی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ آدمی جن کی خود کی بھی بیٹیاں ہوتی ہیں وہ بھی ان پر بری نظر ڈالنے سے باز نہیں آتے۔ گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس سے تو ہم میں سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔ مرد ملازمین ہوں تو وہ بھی حق تلفی اور درندگی کا شکار ہیں، کسی کے جسمانی اعضاء کاٹ دیے جاتے ہیں تو کسی کو کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے۔ آج تک کئی ایسے کیسز آئے اور گئے لیکن اس سب کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی قانون نہیں جس سے گھریلو ملازمین کے حقوق و تحفظ کی یقین دہانی ہو سکے۔

غریب سے غریب تر ہونے اور ظلم کا یہ طویل سلسلہ بھی ہمارے معاشرے کے کچھ اصولوں اور تصورات کی بنا پر جنم لیتا ہے۔ جی ہاں! ان کی نسلوں تک چلنے والی غربت اور حق تلفی کی وجہ میں، آپ اور ہم سب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ناانصافی پر ہم سب نسلوں سے خاموش ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو پالنے کی ذمہ داری تو گھریلو ملازمہ کو دے سکتے ہیں مگر ان کے بچوں کے ساتھ ان کے ہی پرورش یافتہ اپنے بچے کو کھیلنے نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے لیے وہ کم تر ہیں۔ ریسٹورانٹ اور کھیل کود کی جگہوں پر کم عمر آیاوں کو ہم اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا کر لے جا تو سکتے ہیں مگر انہیں ریسٹورانٹ میں ساتھ بٹھا کر کھانا نہیں کھلا سکتے اور کسی کونے میں بٹھا دیتے ہیں کیونکہ وہ کم تر ہیں۔ ہم اپنے باورچی کھانوں میں ان سے کھانے تو بنوا سکتے ہیں مگر انہیں اپنی میز پر بٹھا کر کھانا نہیں کھلا سکتے کیونکہ وہ کم تر ہیں۔

معاشرے میں ان کی اس کم تری کی وجہ آپ، میں اور ہم سب ہیں کیونکہ ان نا انصافیوں پر ہم میں سے کسی نے بھی قانون سازی کی آواز بلند نہیں کی۔ اگر آپ ایک استاد ہیں تو آپ کو اس بات پر افسوس ہونا چاہیے کہ آپ نے ان لوگوں کے حقوق کی تعلیم نہیں دی، اگر آپ بیوروکریٹ ہیں تو آپ کی بیوروکریسی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آپ نے معاشرے کے سب سے کم تر طبقے کے تحفظ کے لیے ہی کوئی قانون نہیں بنایا، اگر آپ صحافی ہیں تو یاد رہے کہ آپ نے بھی اپنا فرض ادا نہیں کیا اور اگر آپ جج یا وکیل ہیں تو آپ نے انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا۔ یوں تو ہم جمہوریت کے دعوے دار ہیں لیکن جمہوریت کے ستون بھی ان غریبوں کو حق نہیں دلا سکتے۔ کسی شعبے کی تو بات دور کی ہے، ہمیں تو اپنے انسان ہونے پر بھی افسوس ہونا چاہیے کیونکہ ہم حقوق العباد پورے کرنے کے بھی اہل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).