پاکستان میں معذور افراد کی حالت زار


1998 کی مردم شماری میں سروے کے ذریعے فارم ٹواے کو پُر کیا گیا۔ نتائج کے مطابق ملک میں معذورافراد کی کُل تعداد 3268630 (بتیس لاکھ چھیاسی ہزار چھ سو تیس) تھی۔ جو کہ کُل 13 کروڑ آبادی کا 2.54 فیصد ہے۔ حکومت نے اِن معذور افراد کے لیے صحت اور تعلیم سمیت انھیں مختلف ہنرسکھانے کے لیے تربیتی مراکز بنائے لیکن غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ معذوروں کے لیے کیے گئے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ اب دو ہزار اٹھارہ ہے اور پاکستان کی آبادی بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے،زرا سوچیں اس ملک میں معذور افراد کی تعداد اور ان کی حالت زار کیا ہوگی ۔ پاکستان میں پچھلے پندرہ بیس سالوں کے دوران زلزلے، سیلاب، مختلف حادثات سمیت دہشت گردی کے واقعات میں کئی افراد معذور ہوئے۔ ان میں ہمارے فوجی بھائی بھی شامل ہیں لیکن اس بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں معذوروں کی کسمپرسی کی حالت کو دیکھ کر حد درجہ افسوس ہوتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ خود غرض اور بے حس ہے جبکہ حکومتیں اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی سے غافل اور نا اہل ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 65کروڑ سے زائد افراد معذور ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد ڈیڑھ سے پونے دوکروڑ کے لگ بھگ ہےجو مختلف نوعیت کی ذہنی اور جسمانی مشکلات کا شکارہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981موجود ہے، جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے۔ اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثرمعذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہےاور پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں۔ ۔ آج دو ہزار اٹھارہ میں بھی معذور گورنر ہاوسکے سامنے ڈنڈے کھا رہے ہیں۔ معذور افراد بھی نارمل لوگوں کی طرح ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کا حسین جذبہ اور تڑپ رکھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ڈھلکتے آنسو ہم سے تقاضہ کررہے ہوتے ہیں کہ خدارا انہیں نظر انداز مت کیجئے۔ کسی بھی صورت ان کی معذوری کی وجہ سے انہیں نارمل انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے ان کے ساتھ خیر خواہی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی’’مین سٹریم‘‘ کا حصہ بنانے میں عوام الناس اور حکومتیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مثبت کردار ادا کریں۔

پاکستان میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ صوبہءِ پنجاب میں تقریباً 264 تعلیمی ادارے سماعت و بصارت سے محروم طلباء، ذہنی پسماندگی اور جسمانی معذوری کے شکار طلباء کو تعلیم اور پیشہ وار تربیت سے آراستہ کر رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا معذور بچوں کو صرف خصوصی تعلیمی اداروں میں محدود کرکے انہیں معاشرے کا مفید اور فعال شہری بنایا جاسکتا ہے؟ترقی یافتہ ممالک میں معذورین کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی آجرین اور کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔ وطنِ عزیز میں معذور افراد کی معاشی و معاشرتی بحالی کے لیے ہر سطح پر سیاسی امور میں ان کی شمولیت لازم و ملزوم ہے۔

جولائی کے مہینے میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہل معذور ووٹرز کی شمولیت کو مکمل بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، نادرا اور افرادِ باہم معذوری کو متحرک ہونا پڑے گا۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جاپان، امریکا، کینڈا وغیرہ میں شدید ترین معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے اور معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو 100 فیصد قابِل رسائی بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں میڑو بس اور لاہور اور ملتان میں اسپیڈو بس سروس کا آغاز ہوچکا ہے جو کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے قابِل رسائی ٹرانسپورٹ ہے۔ وفاقی حکومت اور حکومتِ پنجاب کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔ 2030ء تک اُمید کی جاسکتی ہے کہ عورتوں، بچوں، بزرگوں اور افرادِ باہم معذوراں کے لیے پاکستان کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ قابلِ رسائی بن جائے گی۔

ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موٹر سائیکل اور موٹر کار کمپنیاں معذور افراد کے لیے مقامی سطح پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں ڈیزائن کرکے نہ صرف اپنے صارفین کی تعداد بڑھا سکتی ہیں بلکہ لاکھوں معذور افراد کو متحرک بھی کرسکتی ہیں۔ ملک کی آبادی کا تخمینہ لگانے اور کُل آبادی کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دینے کے لیے پاکستان کی چھٹی مردم شماری کا انعقاد سال 2017ء میں ہوا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جس طرح معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، حالیہ مردم شماری میں بھی انہیں بُری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مردم شماری کے فارم 2 میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ بروقت شامل نہ ہونے سے پاکستان میں افرادِ باہم معذوری کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں کیے جاسکے تھے۔ چیئرمین قومی ادارہ برائے شماریات سے استدعا ہے کہ عالمی پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 17.18 کو حاصل کرنے کے لیے ہنگامی پلان کا اعلان کریں۔ یہ وہ تمام باتیں اور خیالات تھے جو میں ان دس دنوں میں معذور بنکر بیڈ ریسٹ پر سوچتی رہی ،ان دس دنوں میں میں لکھنے کے قابل بھی نہیں تھی ،اس لئے میری تحریر ہم سب کا حصہ نہیں بن سکی ۔ ۔ اب اللہ کے فضل سے روبصحت ہوں،کوشش کروں گی کہ اس طرح کے ایشوز پر لکھتی رہوں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2