کرپشن کی پولیٹیکل اکانومی کیا ہے؟


سرکاری کرپشن کی دوسری خطرناک قسم وہ ہے جس میں سیاستدان یا بیوروکریسی کسی کاروباری کمپنی سے پیسے لے کر اسے یا تو مارکیٹ میں اجارہ داری (مناپلی) قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں یا کوئی نیا قانون اسمبلیوں سے پاس کروا کے یا کسی نئی ادارہ جاتی پالیسی کی مدد سے کسی کمپنی کو قانوناً رعایت یا سہولت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ٹیکسٹائل ملز مالکان کی یونین گورنمنٹ پر دباؤ ڈال کر ان سے ٹیکس میں مکمل چھوٹ لیتی ہے اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ الٹا گورنمنٹ سے وصول کرتی ہے۔

اس طرح کی کرپشن پاکستان میں عام ہے اور یہ کرپشن کی بدترین قسم ہے۔ اس کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں کسی ایک کمپنی یا کچھ کمپنیوں کی یونین کی کسی ایک سیکٹر یا انڈسٹری پر اجارہ داری قائم ہوتی ہے۔ اجارہ داری چاہے سیاست میں ہو سماج میں یا معیشت میں ظلم کی بدترین قسم ہے۔ اس میں مقابلہ اور کارکردگی کی بجائے قبضے اور استحصال کی نفسیات کا غلبہ ہوتا ہے۔

پولیٹیکل اکانومی کا اصول ہے کہ ریاست معاشی سرگرمیوں میں جتنا ملوث ہوتی جائے گی اتنا ہی کرپشن کی اس قسم کو فروغ حاصل ہو گا۔ جب کسی ادارے کے بڑے افسر کو (جیسا کہ پاکستان میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کو معلوم ہو گا کہ ٹیکس قانون کی کسی شق میں تھوڑی سی تبدیلی کسی کمپنی کو کروڑوں کا فائدہ دے سکتی ہے تو اس میں کرپشن کی تحریک کے پیدا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ مثال آپ کے سامنے ہے، پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے ہاں آزاد تجارت کا چال چلن ہے، پاکستان کی معاشی پالیسی میں یہ ثقافت انتہائی کمزور ہے۔ اب پاکستان میں ٹماٹر کی امپورٹ پر پابندی ہے مگر دلچسپ بات یہ کہ processed ٹماٹر جیسا کہ اس کا \”کیچ اپ \” وغیرہ اس کی امپورٹ پر ڈیوٹی انتہائی کم ہے۔ امپورٹ پالیسی میں ایک چھوٹی سی تبدیلی میکڈونلڈ اور کے ایف سی جیسے اداروں کو کتنا فائدہ دے سکتی ہے آپ جانتے ہیں۔ اس طرح کی کرپشن عموما نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب تجارت پر پابندیاں لگتی ہیں تو پورٹ افسران کو پیسے دے کر اپنے تجارتی مال کے لیے پرمٹ حاصل کرنے کا رواج بڑھ جاتا ہے، اور جب تجارت آزاد ہوتی ہے تو یہ امکان انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے آپ دنیا کی تمام بندرگاہوں میں کرپشن کے اعدادوشمار اٹھا لیں۔ جہاں بیرونی تجارت پر سختیاں ہیں وہاں کرپشن زیادہ ہے اور جہاں صرف کوالٹی اور انتظامی امور پر توجہ دی جاتی ہے وہاں آپ کو کرپشن کی شرح بھی کم ملے گا۔ آپ مثال کے طور پر دبئی کی بندرگاہ جبل علی اور ایران کی بندرگاہ بندر عباس پر تجارتی سامان کی نقل و حرکت کی رفتار اور کرپشن کی شرح دیکھ سکتے ہیں۔

کیا کرپشن معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے ؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ غریب ممالک کی غربت کا سبب یہ نہیں کہ وہاں مارکیٹ کام نہیں کر سکتی یا امدادی ادارے امداد نہیں دے رہے یا وہاں قدرت ان سے دشمنی کر رہی ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ غریب ممالک کا اصل مسئلہ چاہے وہ سماجی ہے یا معاشی ہے اس کی جڑیں اصل میں سیاسی ہیں جو اجارہ داری کی ثقافت کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہمارے پاس افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ سنٹرل ایشیاء جنوبی ایشیاء سمیت ان ممالک کی ان گنت مثالیں ہیں۔ پاکستان میں بھی ہمیں دلچسپ شماریاتی ثبوت حاصل ہیں کہ جب سیاسی استحکام قائم ہوتا ہے تو معاشی ترقی کو راستہ ملتا ہے اور جب سیاست ڈاںواں ڈول ہوتی ہے تو سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معیشت بھی مضطرب ہو جاتی ہے۔ غریب ممالک کی سیاست پر یا تو فوج کا قبضہ ہے یا بادشاہ کا یا قبائلی سرداروں کا یا بیوروکریسی ہٹ دھرم ہے یا سیاسی استحکام حاصل نہیں اور یا پھر اداروں کو پنپنے کے مواقع محدود و مقید ہیں۔ ایک بھی ایسا ملک دکھا دیجئے جہاں جمہوری استحکام ہو اور سول ادارے مضبوط ہوں مگر وہ ملک معاشی طور پر غریب ہو ؟ آپ کو ایسا کوئی ملک نہیں ملے گا۔

ذیل میں کرپشن کی چند دیگر وجوہات کا ہم مختصرا ذکر کریں گے۔

۔ جب اداروں کی سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ آن لائن ہوں گی اور متعلقہ سرکاری ملازمین سے فریقین کا ملنا کم ہو گا تو اتنا ہی کرپشن کے امکانات کم ہو جائیں گے …مینوئل سرکاری سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی یا تو مٹھی گرم کی جاتی ہے اور یا پھر سفارش دی جاتی ہے تب جا کر سرکاری سہولیات جلد سے جلد حاصل کی جاتی ہیں۔

۔ ایک معاشرہ جتنا متنوع ہو گا اتنی ہی کرپشن زیادہ ہو گی۔ ایک ذات، زبان، مذہب یا علاقے کا فرد اس آدمی کو زیادہ رعایت یا آسانی دے گا جس کا تعلق اس کی مشترک ذات زبان مذہب یا علاقے سے ہو گا۔

۔ جن جن سرکاری یا نجی ملکیت کے اداروں کو بیرونی ذرائع سے خیراتی فنڈ ملتے ہیں ان میں کرپشن کی شرح بہت زیادہ ہے چاہے وہ مذہبی مدرسے ہوں یا این جی اوز۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پیسے دے رہا ہوتا ہے وہ کارکردگی کا عینی شاہد نہیں ہوتا، اسے آپ ایک ہنستی مسکراتی رپورٹ دکھا کر مطمئن کر سکتے ہیں۔ کاروباری ادارے اپنی کارکردگی کو مالی نفع و نقصان سے جانچتے ہیں، اس میں کارکردگی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔ سرکاری ادارے عموماً اپنی کارکردگی کا جائزہ رپورٹس سے لیتے ہیں، اچھی لفاظی خزاں کو بھی بہار دکھا سکتی ہے۔

۔ ادارے جتنے کمزور ہوں گے اتنا ہی کرپشن زیادہ اور آسان ہو گی۔ یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ ادارے سیمنٹ و سریے سے مضبوط نہیں ہوتے اور نہ ہی محض قانون لاگو کرنے سے وہ مستحکم ہو جاتے ہیں۔ قانون اور ثقافت میں اگر فرق دیکھا جائے تو چاہے اصولی طور پر قانون کا پلڑا بھاری ہوتا ہے مگر عملاً رواج ثقافت کا ہوتا ہے۔ ثقافت روایات کا تسلسل ہوتا ہے، اس کی جڑیں تاریخ اور اقدار میں دھنسی ہوتی ہیں۔ محض قانون کی شق بدلنے سے ثقافت کا رجحان بدلنا آسان نہیں۔ اسی لئے دنیا میں جہاں بھی ادارے مضبوط ہیں وہاں انہیں ارتقائی قوتوں کی خاص مدد حاصل رہی ہے جو محض ایک دن یا چند سالوں کا واقعہ نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی منظم کوششوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں جب تک اداروں کو وقت نہیں ملتا اس وقت تک ان میں بہتری کا امکان انتہائی کم ہے۔ یہاں فوج اور بیوروکریسی اس لئے بھی مضبوط ہے کہ یہ دو ادارے برطانوی راج میں بھی مضبوط تھے اور مغلوں کے اقتدار میں بھی یہ اپنی قدیم شکل میں موجود تھے۔ سیاسی اداروں کی یہاں تاریخ مختصر اور کمزور ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ سیاسی و سول ادارے وقت کی بھٹی میں پکے بغیر مضبوط ہو جائیں۔

۔ ایک اہم نقطہ انسانی نفسیات کا بھی ہے جو ترغیبات (Incentives) کو رسپانس کرتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ فائدہ کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور نقصان سے دور ہٹتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہم سے قرض لے کر واپس نہیں کر رہا تو ہم اسے دوبارہ قرض نہیں دیں گے۔ اسی طرح اگر ایک شخص ہزار روپے کماتا ہے اور نتیجے میں اسے تین سو ستر سے چار سو کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ دوسرا شخص ہزار روپے کماتا ہے مگر سو روپے ٹیکس آفیسر کو دے کر اپنے دو سو ستر سے تین سو روپے بچا لیتا ہے تو ہو گا یہی کہ باقاعدگی سے ٹیکس دینے والے کے اندر بھی ٹیکس سے بچنے کی تحریک پیدا ہو گی، یوں بدعنوانی آگے فرد سے فرد پھیلتی جائے گا تب تک کہ ریاست ٹیکس کی ثقافت کو ٹیکس ادائیگی کے مثبت محرکات (incentive ) سے نہیں جوڑ دیتی جن میں سے ایک یہ ہے کہ فرد کو یقین ہو جو ٹیکس اس سے وصول کیا جا رہا ہے وہ اس پر ہی خرچ ہو گا۔

انسانی فطرت ہے کہ ہم جبر کے خلاف مدافعت کرتے ہیں۔ آزادی ہماری فطرت کا جوہر ہے۔ قانون جبر کی ہی ایک قسم ہیں، اگر قوانین عوام میں مثبت محرکات اور ترغیبات پیدا نہیں کرتے تو یقینا عوام ان سے انحراف کی ہر ممکن کوشش کریں گے یوں اس سے مالی اخلاقی اور سماجی کرپشن کو راستہ ملے گا۔ اسی طرح اگر قوانین مثبت محرکات اور ترغیبات کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں تو ہم خود ان کی طرف بڑھیں گے۔ یوں حاصل یہی ہے کہ جب تک قانون سازی و انتظامی اداروں کی ثقافت لوگوں کی آرزوؤں کے عین مطابق نہیں ہو گی اس وقت تک کرپشن کی مختلف اقسام ہمیں نقصان پہنچاتی رہیں گی۔

۔ جتنا زیادہ نظام بیوروکریٹک ہوتا جائے گا اتنا ہی کرپشن بڑھتی جائے گی۔

۔ قانون کی حکمرانی سماج کو مہذب بناتی ہے۔ کوئی بھی ادارہ اگر قانون توڑ کر قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے شیطان کو دنیا میں بھلائی پھیلانے کے لئے اقتدار دے دیا جائے۔ قانون کی حکمرانی قانون کی پابندی میں ہی ہے۔ وہ معاشرے جہاں قانون کی عملداری کمزور ہے وہاں کرپشن کا راج ہے۔

اس تحریر میں نہ تمام وجوہات کا تفصیل سے ذکر ہے اور نہ ہی میں کسی کرپشن مکاؤ سائنس کا کوئی نامی گرامی ماہر ہوں۔ سوشل سائنسز کے مطالعہ سے اب تک جو سمجھ پایا ہوں مختصرا آپ کے سامنے رکھ دیا ہے، آئیے اس موضوع کو سنجیدہ مکالمہ کا موضوع بنائیں جس میں سنجیدہ تجزیاتی و تجرباتی سائنس کا غلبہ ہو تاکہ معاشرہ انتشار کو ختم کرنے کے لئے انتشار کے راستہ کا انتخاب کرنے کے بجائے مخلص و مہذب انتظام کی طرف رجوع کرے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments