لاہور میں اورنج ٹرین منصوبہ


\"shahidاورنج ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبوں میں بدعنوانی، بد انتظامی اور ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کے معاملات اپنی جگہ تحقیقات کے متقاضی ہوں گے لیکن میرے جیسے عام شہریوں کو ایسے منصوبوں کی تکمیل سے کئی فائدے ہوسکتے ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ فوائد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں۔ ان کا فلسفہ کیا ہے؟ موجودہ دور میں فلاسفی آف ڈویلپمنٹ، انتظامی مہارتوں اور اہلیت کی محتاج ہے۔ ماہرین کے مطابق میٹرو پولیٹن اور کاسمو پولیٹن شہروں میں بہتر اورتروتازہ زندگی کا انحصار انکی ٹریفک مینجمنٹ پر ہوتا ہے۔ دنیا کی ترقی کا انحصار بھی کشادہ سڑکوں پر ٹریفک کے کم سے کم دباؤپر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہم لوگوں کو سچائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اور سچائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں میٹروبس اور انٹرسٹی اورنج ٹرین چلنی چاہئے ۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان کے علاوہ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، کوئیٹہ، حیدرآباد، سکھر، سرگودھا، بہاولپور، ساہیوال، سمیت دیگر بڑے دس شہروں میں بھی زندگی کشادہ سڑکوں اور میٹرو بسوں کے انتظار میں سسک رہی ہے۔ پاکستان کے 23 بڑے شہروں میں دفتری، کاروباری، تعلیمی اور سماجی زندگی روزانہ سڑکوں پر خوار ہوتی اور ڈپریشن و جھنجھلاہٹ سے گزرتی، بے جا سفری اخراجات برداشت کرتی ہے۔ لہذا موجودہ لیڈر شپ کے لئے یہ چیلنج بہت بڑااور مشکل ہے خاص طور پر پنجاب کے وزیر اعلٰی کے لئے کیونکہ پاکستان کے بیشتر بڑے شہر پنجاب میں واقع ہیں ۔ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلٰی کو اس سے کم درجہ کے ترقیاتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ سیاسی بدعنوانیوں کے چکر میں خدمت کے عزم سے محروم نظر آتے ہیں۔

جہاں تک لاہور کی بات ہے۔۔۔ میرے لئے یہاں زندگی کے بہترین معیار کی خواہش کرنا فطری بات ہے۔ مجھے میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کی بہت ضرورت ہے۔

\"Lahore-Metro-Train-Route-Ma\" 

میرے لئے اورنج ٹرین بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی میٹرو بس سروس۔ اگرچہ میں نے ابھی تک میٹرو بس میں صرف ایک بار ہی سفر کیا ہے اورجب یہ سفر کیا توبھید کھلا کہ آزادی چوک سے کملہ چوک تک جتنی آسانی مجھے میٹرو بس میں سفر کرکے حاصل ہوئی ہے اتنی اپنی کار میں مشکل ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسکے لئے ذرا انتظار اور کھڑے ہوکر سفر کرنا بھی پڑتا ہے لیکن بیس روپے میں دس بارہ کلومیٹر فاصلہ آپ ٹریفک سے پیدا ہونے والی اذیتوں کے بغیر کرلیتے ہیں اور یوں نہ آپ کا پٹرول جلتا ہے نہ خون۔ تو داد تو دینی پڑتی ہے ناں۔۔۔ یہی امید مجھے اورنج ٹرین سے ہے۔ میں تو عام طور پر اپنی گاڑی میں ہی سفر کرنابہتر سمجھتا ہوں اور یہ بندے کی مجبوری بھی بن جاتی ہے کیونکہ میٹروبس تو مخصوص روٹ پر چلتی ہے جبکہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی کو کسی وقت کہیں بھی جانا پڑسکتا ہے لہذا وہ میٹرو کا انتظار نہیں کرسکتا ۔

میٹرو بس کی افادیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں میرے ایک عزیز دوست نے انگلینڈ سے فون کیا کہ اسکی اہلیہ ایک سہیلی کے ساتھ راولپنڈی سے لاہور آرہی ہیں جنہیں ڈیفنس میں ایک ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ۔ اس روز میں خود بہت مصروف تھا ۔ لہذا میرے لئے اتنا آسان نہیں تھا کہ رش آورز میں گارڈن ٹاؤن سے نکل کر لاری اڈہ جاتا اورپھر انہیں وہاں سے لیکر ڈیفنس آتااور پھر انہیں دوبارہ لاری اڈے پر چھوڑنے جاتا۔ یہ کافی تکلیف دہ سفر بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات انتہائی بداخلاقی کا نمونہ نظر آتی ہے کہ آپ مہمانوں کو رسیو کرنے لاری اڈے پر نہ جائیں تو ساری عمر کے تعلقات متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس پر مستزاد کہ مہمان خواتین ہوں اور انکے لئے لاہور اجنبی شہر۔ میں کافی دیر پریشان رہا پھر اچانک خیال آیا اور جب خواتین لاری اڈہ پر اتریں تو فون پر رابطہ کرکے میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ میٹرو بس پر بیٹھ جائیں تو اس طرح وہ آسانی سے فیروز پور روڈ پر ماڈل ٹاؤن اسٹیشن تک آسکتی ہیں ۔ سمجھدار پڑھی لکھی خواتین تھیں لہذا وہ آزادی چوک سے میٹرو بس پر سوار ہوئیں اور تیس پینتیس منٹ بعد وہ ماڈل ٹاؤن اسٹیشن پر پہنچیں تو میں ان کااستقبال کرنے کے لئے موجود تھا۔ وہ بہت خوش تھیں ۔ کہنے لگیں’’میٹرو بس میں سفرکرنے کا واقعی بڑا مزہ آتا ہے، رکشہ والا یہاں تک آنے کے لئے چار سو روپے مانگ رہاتھا لیکن ہم چالیس روپے میں پہنچ گئی ہیں\”

\"construction-of-metro-busمیں نے لاہور میں ٹریفک کے مسائل اور سفری اذیتوں سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا ’’لاہور میں گاڑی چلانا ایک سخت اور ناپسندیدہ جاب ہے۔ اگر آپ گنجان علاقوں میں چلے جائیں تو پھر واپسی پر آپ کسی اور کام کے لئے فریش نہیں رہتے ۔ بس، ویگن، رکشہ، چنگ چی، موٹر سائکلز، ریڑھیاں، ٹریکٹر ٹرالیاں، لوڈر ٹرالز اور پیدل چلنے والوں کی وجہ سے ٹریفک کا برا حال ہوتا ہے ۔ جس علاقے سے آپ آئی ہیں اب تو اسکی کوئی شکل نکل آئی ہے اور ٹریفک قدرے بہتر ہوا ہے، سڑکیں پل بننے سے پہلے ڈیفنس سے لاری اڈہ تک جانے کے لئے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا تھا اور رکشہ لے لیا جائے تو گرد اوردھواں کھا کر بندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔\”

’’بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے ، انسان جیسے حالات میں رہتا ہے اسکے ساتھ جینا سیکھ لیتا اور اپنے مسائل کو سب سے زیادہ تکیلف دہ سمجھتا ہے۔ ہم پنڈی والے ایسی بری ترین ٹریفک کے عادی ہیں۔ انٹر سٹی ٹریول کرناواقعی بہت مشکل کام ہے لیکن شکر کریں شہباز شریف نے روزانہ کروڑوں گالیاں کھانے اور بددعائیں لینے کے باوجود وہ کام کردئیے ہیں جو ساری زندگی اسکا صدقہ جاریہ ہوں گے۔ میں پہلے بھی لاہور آتی جاتی رہی ہوں لیکن پانچ سال بعد جس لاہور کو دیکھ رہی ہوں واقعی بدل گیا ہے۔ سڑکیں تو شہر کی آکسیجن کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ جتنی کشادہ اور صاف ستھری ہوتی ہیں، شہر اتنا ہی خوبصورت نظر آتا ہے۔ لاہور ایک معروف میٹروپولیٹن شہر ہے اس میں تو یہ میٹرو اور اورنج ٹرین ہی کیا اور بھی زیادہ سفری سہولتیں ہونی چاہییں۔\”

\"orange\"میری مہمان خواتین کا نقطہ نظر بڑا واضح تھا۔ لاہور میں سڑکوں کے کشادہ ہونے سے شہریوں کاطرزعمل بدل جاتا ہے اور زندگی کو موت کی کشمکش سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس وقت لاہور دہلی کے بعد دنیا کا آلودہ اور دھواں دار شہر ہے جہاں تازہ ہوا انتہائی کمیاب ہوچکی ہے اور عالمی ماہرین نے انتباہ کررکھا ہے کہ جن شہروں کی فضاؤں کو دھواں ڈھانپ لیتا ہے وہاں موت بھی سسک سسک کر ملتی ہے۔ ۲۰۱۲ء میں دنیا بھر کے میٹروپولیٹن شہروں میں ستر لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد گنجان آباد بڑے شہروں میں آکسیجن لیول بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ کتنا بڑا خطرہ تھا یہ۔ میٹروپولیٹن لاہورایک کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے جہاں روزانہ لاکھوں لوگ اپنی اور پرائیویٹ گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام پیدا ہوتا ہے تو ایندھن جلنے سے لاہور کی فضا آکسیجن سے محروم ہوجاتی ہے لیکن اب میٹرو بس پر روزانہ 75 ہزارلوگ سفر کررہے ہیں تو اورنج ٹرین پرروزانہ 250000 لوگ سفر کرسکیں گے ۔ یوں سڑکوں پر گاڑیوں کا دباؤ کم ہونے سے دھویں اور آلودگی کی شرح کافی کم ہوجائے گی۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا تو لاہور میں ساڑھے تین لاکھ کاریں اور ساڑھے آٹھ لاکھ موٹر سائکلیں دوڑا کرتی تھیں ۔ کسی میٹروپولیٹن شہرجس کی سڑکیں تنگ ہوں اور ٹریفک پولیس لاچار ہوچکی ہوتو اس کی بدحالی اوربد انتظامی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ لاہور کی تباہی کا سبب ہی یہ بدترین انفراسٹرکچر رہا ہے۔ لاہور عالمی درجہ کا معروف شہر ہے جو کراچی کے بعد پاکستان کی اقتصادی رگ جاں ہے لہذا لاہور کو عالمی سطح پر معاشی طور پر ایک مضبوط شہر کے طور پر سامنے لانے کے لئے اس کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا ناگزیرہوچکا تھا۔ کراچی کی زبوں حالی کی وجہ بھی یہی رہی ہے کہ وہاں بنیادی ترقیاتی کام نہ ہونے سے معیشت کا عالمی پہیہ ٹیڑھا ہوگیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے غالباً معاشی و اقتصادی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے لاہور میں چین اور ترکی کے ساتھ کئی منصوبے شروع کرنے سے پہلے یہاں سڑکوں کی کشادگی اور میٹرو اورنج منصوبوں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ منصوبہ درحقیقت باغوں کے شہر کو آکسیجن دینے کا باعث بنے گا۔

  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments