مملکت پاکستان کے فکری قطب نُما۔۔۔۔ قائد اعظم یا ہادی برحق ﷺ ؟


\"Shahzadحیرت ہے کہ 97% مسلم اکثریتی مملکت پاکستان کے بارے میں اس کے قیام کے 69 سال بعد بھی بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آیا پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے، یا سیکولر اسٹیٹ؟

اور اس کے ساتھ ہی پھر اسے ایک سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کے لئے ایک مبہم اور بے ربط مہم شروع کردی جاتی ہے، وہی برسوں پرانا، اور سیاق و سباق سے ماورا دلائل کا انبار، کہ جنھیں مکمل تاریخی اور علمی تناظر میں کئی کئی مرتبہ غیرمتعلقہirrelevant اور غیر موثر ثابت کیا چکا ہے۔۔۔۔ لے دے کر پھر وہی 11اگست 1947 والی بانی پاکستان کی تقریر۔۔۔۔ اور پھر زبردستی یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیا جاتا ہے کہ چونکہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ یا عندیہ ظاہر کیا تھا، تو بس اب لازم ہے کہ آیندہ پاکستان کو اسی نام سے لکھا، پڑھا، اور پُکارا جائے !

قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست کو جو تقریر کی تھی، اس کے سیاق و سباق، موقع محل، اور تاریخی پس منظر وغیرہ کا  تعین یہاں مقصود نہیں ہے، ( گو کہ اس تقریر کے باوجود، قرار داد مقاد کو آئین پاکستان کا لازمی حصہ بنانے کے بعد الحمدُللہ پاکستان آج ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے )۔۔۔۔ لیکن پہلے تو یہ تعین کرلیجئے کہ 97% مسلم اکثریتی مملکت کے بڑے فکری قائد، اور نظریاتی قطب نُما کون سی شخصیت ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو یہ طے کرلیجئے، یا پھر دوبارہ یہ طے کرلیجئے کہ وہ کون سی ہستی ہے، جس کی رائے کے بر خلاف دلائل کے انبار، کاٹھ کباڑ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔۔۔ وہ کون ہے، جس کے کہے گئے الفاظ، اور جس کی دی گئی گائڈ لائن سے متصادم دنیا بھر کے تمام بقراطوں، اور سقراطوں کے فاسد نظریات کو پاوں کی ٹھوکر پر رکھا جائے ۔۔۔۔ جس کا کہا، حرف آخر ہو، جس کے سامنے بے مہار بولتی زبانیں، گنگ ہوجائیں !

کیا وہ شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح ہیں ؟ زرا توقف کریں، لیکن پہلے 10 مرتبہ اس حقیقت کو دُہرا لیتے ہیں، کہ قائد اعظم بھی پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہی بنانا چاہتے تھے، اور اسی کا انھوں نے قوم سے وعدہ بھی کیا تھا ۔، اور اس کے ساتھ ہی، پھر یہ بات بھی پتھر پر لکیر ہے کہ قائد اعظم یا کسی اور نے، کسی بھی موقع پر، خواہ کچھ بھی کہا ہو، جب تک کوئی تقریر یا تحریر، یا موقف، ہادی برحق، نبی مہربان، محمد عربی ﷺ کے دیئے گئے روڈ میپ  Road map کے مطابق نہیں ہے، تو ایسی تحریر، یا تقریر اہل پاکستان کے لئے ایک قطعی غیر متعلق Irreletive چیز ہے، لیکن ٹھیریں، ایک منظر نامہ دیکھتے ہیں ۔۔۔!

دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد، جب حالات کے جبر نے پوری دنیا کا جغرافیائی اور سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا تھا، ایک ایک دن میں کئی کئی ممالک کی سرحدیں تبدیل ہورہی تھیں۔۔۔۔ اور world affairs after 1945نے امکانات و حوادث کی ایک بالکل مختلف بساط آرستہ کر دی تھی، یہ وہ وقت تھا جب خیالات و ترجیحات اور ممکنات کے تار و پود بکھر کر رہ گئے تھے۔۔۔۔دنیا کی اس نئی صف بندی کے دوران بہت سے لوگ، بہت کچھ کہہ رہے تھے، اور پھر اپنی ہی کہی گئی باتوں سے رجوع بھی کررہے تھے۔ ایسے ادلتے بدلتے حالات میں اختیار کردہ نظریات اور لائحہ عمل، ضروری نہیں ہے کہ وہ سب غلط ہوں، یا سب درست ہوں، \”تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا\”  کے مصداق، اُس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے سکہ بند اکابرین کے نظریات میں واضع تبدیلی دیکھی گئی، خود قائد اعظم بھی بہت عرصہ تک کانگریس کو برصغیر کو درپیش مسائل کا حل سمجھتے رہے، کیونکہ سیاسی اور جغرافیائی جکڑ بندیوں میں محصور خیالات و نظریات اپنا رُخ تبدیل بھی کر لیتے ہیں، جبکہ قیامت تک کے لئے رہنمائی، اور قول فیصل کا درجہ تو بس آقائے دوجہاں ﷺ  ہی کو حاصل ہے۔۔۔

پاکستان غلامان مصطفی کا مسکن، اور اللہ کے شیروں کا نا قابل تسخیر نظریاتی قلعہ ہے، اور پاکستان کی 16 کروڑ مسلم آبادی صرف ہادی برحق، محمد عربی ﷺ کواپنا فکری قائد، اور نظریاتی قطب نُما تسلیم کرتی ہے، پاکستان کے نظریاتی تشخص کے بارے میں، Mohammadi school of thoughts  سے باہر جا کر، کسی نے خواہ کچھ بھی لکھا ہو، کچھ بھی کہا ہو، وہ سب کچھ بے محل، سب کچھ غیر متعلق۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments