پیر، میر، سردار اور بھوتار کسی کے نہیں ہوتے


سوچتی ہوں ان اہل جنوں و اہلِ وفا پہ کیا گزری ہوگی، جب انہوں نے اپنے قائد کی شہادت پر مٹھائیاں بانٹنے والوں کو ہار پہنائے ہوں گےکہ…. اب وہ تائب ہوگئے ہیں۔کیسے دکھی دلوں سے بھنگڑے ڈالے ہوں گےکہ وہ فلاں ابن فلاں ، فلاں پارٹی چھوڑ کر واپس پی پی پی میں آگئے ہیں…. فلاں بزدل اب پھر پارٹی میں آگیا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ان بھگوڑوں نے غریب کارکنوں پر زمین تنگ کر دی تھی، مگر وہ ان کے پھر سے لوٹ کر آنے کی خوشی میں جھمریاں ڈالنے کے لیے تیار ہوگئے ۔

بھٹو شہید کا اصولوں کی خاطر پھانسی گھاٹ پر جاکر امر ہوجانا، بی بی شہید کا ہر طرح کے خطرے کے باوجود اپنے عوام سے رشتہ نہ توڑنا اور جان دھرتی کے سپرد کرنا، آج کے دور انحطاط میں، کچھ لوگوں کی نظر میں شاید اہم نہ ہو مگر یہ عظیم قربانیاں مستقبل میں….اساطیر کہلائی جائیں گی۔تین نسلوں کی قربانی پہ کھڑی ہے پیپلزپارٹی….بھٹو صاحب کی جدوجہد…. شاہ نواز بھٹو، میر مرتضی بھٹو، بے نظیر بھٹو،شہادتوں اور قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسوب ہے اسی لئے پیپلزپارٹی کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں۔ یہ پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے، جس کے کارکن سینہ ٹھونک کے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے قربانیاں دیں تو ہمارے قائدین نے بھی قربانیاں دیں۔ اسی لئےقائد کے نقشِ قدم کو حیات سمجھنے والے…. ضمیر کے احساس کے ساتھ جینے والے، بھٹو کے کفن پوش دیوانے، ہر آزمائش میں سرخرو ہوتے ہیں۔ ہر بار اس پارٹی کی قسمت میں ایک نئی صورتحال سے نبٹنا لکھا ہوتا ہے۔ضیائی باقیات نے روپ بدل بدل کر وار کئے، ملا، ملٹری، میڈیا مافیا اتحاد کے ساتھ ساتھ آمر کے ساتھی، جمہوریت کے چوغے میں عوام کی قربانیوں اور مینڈیٹ پر شب خون مارتے رہے ہیں….یہ طویل سفر ہے، آزمائشوں، کٹھنائیوں، عذابوں سے اٹا ہوا۔ یہ جان کی بازی ہے ، جو صرف جیالے ہی بے دھڑک لگا سکتے ہیں کیوں کہ لفظ ’’بھٹو‘‘ ان کا ایمان ہے۔جناب آصف علی زرداری ایک مشاق شہ سوار کی مانند پارٹی کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

2018کے انتخابات سامنے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ کے12 ویں الیکشن۔ مگر جب پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کی بات ہوتی ہے تو سامنے آتے ہیں ، اُتر کے سردار….وچولے کے جاگیردار…. دادو اور نوشہرو کے وڈیرے،ٹھٹھہ کے بھوتار…. کہاں ہیں جیالے؟؟ اور سندھ سے باہر بھی نظر دوڑائیے ، وہی رعونت زدہ چہروں والے لوٹے ، جنہوں نے جنرل ضیاء کی بد ترین آمریت میں شراکت اقتدار کے مزے لوٹے، بار بار اسمبلیوں میں بیٹھنے والے….. جن کا دل گلیوں، محلوں، قصبوں اور دیہاتوں میں عوام کی حالت زار پر نہیں کڑھتا۔ان میں سے کتنے پیر، کتنے میر، کتنے وڈیرے، کتنے جاگیردار، کتنے بھوتار، کتنے سرمایہ دار، کتنے کاروباری ، جیلوں میں گئے، کوڑے کھائے، قلعوں کے عقوبت گاہوں میں ایذائیں سہیں؟ نہ وہ ٹکٹکیوں پر…. نہ وہ جیلوں میں، نہ وہ صلیبوں پر تو پھر وہ مسند وں پر کیوں؟ اور ہر بار کیوں؟ ان میں لسانی ، سماجی ، مذہبی اور سیاسی دہشت گرد بھی ہیں تو گدی نشین، قبیلائی روایتوں کے امین بھی۔ انہیں جمہور اور جمہوریت سے کیا غرض؟ یہ پیر، میر، وڈیرے، سرمایہ دار برساتی مینڈک ہیں….ہمارے شہر، گوٹھ اور قصبے یرغمال ہیں ان کے ہاتھوں …. یہ قبضے چھڑوائیے…. عوام کو آزاد کروائیے۔ مجھے نہیں معلوم ، ان میں سے کتنے ٹکٹ یافتہ معزز ممبران جانتے ہیں کہ لالہ اسد کون تھا؟ ادریس طوطی کا تعلق کہاں سے تھا؟ ایاز سموں اور ادریس بیگ کے اہلِ خانہ کس حال میں ہیں؟ رزاق جھرنا ، والہانہ تختۂ دار پر اپنے قائد کی محبت میں کیونکرجھول گیا؟ رحمت اللہ انجم کے گھروالوں کا کیا بنا؟؟ اور وہ بے شمار نظریاتی کارکن اور ان کے گھر والے کس حال میں ہیں ، جو پیپلز پارٹی کے قا ئدین پر نچھاور ہوئے؟جنہیں پابند سلاسل رکھا گیا۔ ملک بدری پر مجبور کیا گیا؟کون رکھے گا ان کا حساب….؟

پیپلزپارٹی کی طاقت وہ کارکنان تھے جنہوں نے بھری جوانیوں میں طوق اور بیڑیوں کے زیور پہنے، اپنی زندگی کے بہترین سال بھٹو کے عشق کی پاداش میں پابندسلاسل گزارےاور موت کے پروانے کو بھٹو سے محبت کی سند کہہ کر چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ اور آج بھی پارٹی کا سرمایہ ہمہ وقت متحرک وہ پولیٹیکل کارکن اورجیالے ہیں…. جو اپنے خون پسینے سے پارٹی کو سرگرم رکھے ہوئے ہیں۔مختلف جماعتوں سے بار بار استفادہ کرنے والے لوگوں کو ویلکم کرنا اور پھر انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ سے منتخب کروانے سے کہیں بہتر ہے کہ ان قربانی دینے والے ورکروں، جیالوں …. جنہوں نے کوڑے کھائے، قلعوں کی سختیاں برداشت کیں، جابروں کا مقابلہ کیا، اور ثابت قدم رہے ، کو ٹکٹ دے کر مثال قائم کی جائے۔پیپلزپارٹی کا ورکر مزاحمت اور جدوجہد کا استعارہ ہے اور برداشت اور ثابت قدمی اس کا صوفیانہ جواب ہے۔ نظریاتی کارکنوں کو الیکٹیبلز میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا کبھی یہ اہل صفا ، مردود حرم ، مسند پہ بٹھائے جائیں گے؟یہ وقت ان جان نثاروں اور حریت پسندوں کا ہے۔بھٹو کی پارٹی کا ٹکٹ عوام کی امانت ہے۔عوام کو ان کی امانت کب ملے گی؟

 بھٹو کی پیپلزپارٹی اور آج کی پیپلزپارٹی میں بنیادی فرق اس احساس کا ہے جنابِ والا…. جو احساس ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں اپنی عوام کے لیے تھا۔میرے قائد نے کہا تھا کہ ”میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں، جس کی چھت بارش میں ٹپکتی ہے۔ “یہ بھٹو کا نام لیتے ہیں، مگر ان کے دل میں وہ احساس نہیں ہے….وہ احساس جو انسان کو رنگ، نسل، قبیلے، زبان اور ذاتی مفاد سے بالا تر کردیتا ہے۔ ان کا دل عوام کو مصیبت میں دیکھ کر بھٹو کے دل کی طرح بے چین ہو کرتڑپتا اور کلستانہیں ہے۔ یہ نمائندے آپ کا انتخاب ہیں…. مگر عوام کی مجبوری ہے صاحب۔قسم لے لیں…. مہرو وفا کی مٹی سے گندھے یہ عوام، بھٹو سے محبت جن کا مزاج ، جن کی روح ، جن کی عبادت و بندگی ہے، مہر و مروّت ہے۔ شہیدوں سےبے وفائی جن کی سرشت میں نہیں….یہ لوگ فلاں ابنِ فلاں کو ووٹ نہیں دیتے…. یہ تو ان کو جانتے تک نہیں…. یہ بھٹو کے پرستار ہیں…. بھٹو کے دیوانے ہیں….جو اونچے شملے والوں کی زورآوری کو خوب سمجھتے ہیں پھر بھی ان کےلبوں پر یہی ورد ہوتا ہے:

جاں رب دی، ووٹ بھٹو دا

فیصلہ ضمیر دا، ووٹ بے نظیر دا

یہ عشق بھٹو سے ہے آپ سے نہیں …. آپ کا احترام نہیں ، آپ سے محبت نہیں….کیونکہ آپ کے دل میں بھٹو کی محبت نہیں، آپ کو اپنی بادشاہی سے محبت ہے۔اقتدار کانٹوں کی سیج ہونی چاہیے۔ سیاست خدمت کا نام تھا اور ہونا چاہئے … مگر آپ میں سے اکژ خدمت گا ر نہیں ہیں۔ یہ شہید بھٹو اور بی بی کی شہادت کا قرض ہے جو عوام اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قرض کی معیاد و مدت کبھی بھی غیر معین نہیں ہوا کرتی۔

صاحبانِ مسندِ اقتدار و جاہ جلال! آپ کی چمچماتی گاڑیوں کی خیر ہو…. میرے منہ میں خاک، مگر خدا کی قسم لوگ آپ کو پسند نہیں کرتے۔ اور خلق خدا کا کہا، حرف غلط نہیں ہوتا۔ تاریخ بہت خاموشی سے اپنا بیان ریکارڈ کرواتی ہے۔ وہ بولتی ہے، دکھاتی ہے اور سناتی ہے، اور جو اسے سن اور دیکھ نہیں سکتے، ان پر تمسخر سے ہنستی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت کے فرعونوں کی قبریں نشانِ عبرت بن جاتی ہے۔ گولیاں ایک دن ختم ہوجاتی ہیں۔ لاشیں گرانے والے کوڑھی ہوجاتے ہیں…. تشدد کرنےوالے ہانپتے ہانپتے گر جاتے ہیں….کوڑے مارنے والے ہاتھ فالج زدہ ہوجاتے ہیں…جن شہروں کی ہنستی بولتی آبادی لمحوں میں ایٹمی ہتھیاروں سے فنا کردی جاتی ہے، اس سر زمین کے سینے سے بھی ایک دن گلاب کا پودا پھوٹ اُٹھتا ہے اور قافلہ جمہور رواں دواں رہتا ہے۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2