ایک نعرہ بنا ہے اس کا لہو  


\"taqi\"قیادت انسانی زندگی کی ایک صفت ہوتی ہے اور اس کی شخصیت تمام اوصاف کا مجموعہ ہوتی ہے- میرے خیال کے مطابق کسی قائد کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی شخصیت اور صفات کو جاننا چاہیے ہمیں اس کی نفسیات کا تجزیہ کرنا چاہیے، ان  وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے جنہوں نے اس کو کسی مقصد کے حصول کے لیے ترغیب دی- خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ وہ قائد انقلابی ہو- انقلاب زیادہ تر اونچے طبقے کے لوگ لاتے ہیں اور یہ ان کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ کسی پراسرار اور ذہین شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں- انقلابی لوگ ان خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے معاشی تکلیف کا سامنا نہ کیا ہو- ان کی محرومیاں معاشی نہیں بلکہ نفسیاتی ہوتی ہیں- وہ دراصل لاشعور میں انعام، عزت، سیاست میں شرکت اور شہرت چاہتے ہیں- جو ان کی با کمال شخصیت کو سماجی انصاف کے لیے جدوجہد میں معروف رکھنا چاہتی ہے چاہے اس میں مہم جوئی اور خطرات موجود ہوں.

4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تھا- جب ملک کے منتخب وزیراعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چئیرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا تھا- ذوالفقار علی بھٹو کو وقت کے سفاق حکمرانوں نے اور عدلیہ نے بے قصورتختہ دار پر چڑھا دیا لیکن آج تک عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہی کی جا سکی اور تاریخ دان جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھتا ہے تو اس میں بھٹو کو مظلوم اور ضیاء و عدلیہ کو آمرو ظالم ہی لکھتا ہے-

نومبر1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست نے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، مزدوروں، اور دہقانوں میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے نئی امید کے چراغ جلا دیے-

بھٹو انقلابی تھے اور انہوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جہموریت کی نئی راہ دکھائی- اسی طرح وہ قوم کے پہلے معمار اور سیاسی رہبر ثابت ہوے- ان کی ان تھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور کسان اور پسے ہوے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا- انھوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیز جھونپڑ پٹی تک پہنچا دیا-

یہی وہ اسباب ہیں جس سے جاگیردار، سرمایادار،وڈیرے، چوہدری، پیر اور امیر طبقہ عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہو گئے  اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوام کی اہمیت اجا گر ہوئی- بھٹو پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ کرشمہ ساز شخصیت تھے- وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس ملک میں اپنے نام کی غیر متزنزل طاقت چھوڑ گئے جو آمروں کی نیدیں حرام کرنے کے لیے کافی تھی-

کچھ لوگ اپنی طاقت اور حکمرانی کے نشے میں گم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ ہر ایک آواز جو سوال کرتی تھی اس کو خاموش کرنے کا حکم صادر کردیا جاتا تھا

حبیب جالب ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ \”میں ان سے پہلی بار اس وقت ملا تھا جب انہوں نے ایوب حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا- اور دور دور تک یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ ایوب چاہتے تھے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں ملک سے باہر چلے جائیں تو میں نے اس وقت یہ نظم لکھی؛

دست خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا

آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا

تیرے شریک حال ہیں منصور اور بھی

سونی فضائیں دارو رسن چھوڑ کے نہ جا

کچھ تیری ہمتوں پہ  بھی الزام آے گا

مانا کہ راستہ ہے کھٹن چھوڑ کے نہ جا

اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی

کر احترامِ رسمِ کہن، چھوڑ کے نہ جا

اسی دن روزنامہ \”نواےَ وقت\” نے یہ نظم شائع کی اور اسی دن اخبار کالے بازار میں پانچ روپے فی کس کے حساب سے فروخت ہوا- بھٹو صاحب مہربانی فرماتے ہوے مجھ سے کافی ہاؤس میں ملنے آے- یہ ان کا وصف تھا کہ وہ لوگوں سے براہ راست ملتے تھے- اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ہمہ وقتی شخصیت تھے\”-

تاریخ بھٹو کی دلیری اور حوصلہ مندی کی گواہ ہے- ڈاکٹر کامل راجپر بھٹو صاحب کا دلیرانہ واقع بیان کرتے ہیں کہ \” 1969 کے مارشل لاء دور میں جب سارے پاکستان کے تعلیمی اداروں کے حدود میں سیاست دانوں کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا اس وقت میں  لیاقت میڈیکل کالج، جام شورو کے طلباء و یونین کے جنرل سیکرٹری کی حثیت سے یونین کی جنرل باڈی اور کالج کی تعلیمی کونسل کی طرف سے یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو \”یومِ لطیف\” کے موقع پر مہمان خصوصی کی حثیت سے مدعو کیا جائے- یہ خبر اخبارات میں شائع ہو گئی کہ بھٹو صاحب لیاقت میڈیکل کالج جام شورو میں مہمان خصوصی ہوں گے- اس خبر نے مارشل لاء حکام کو چوکنا کر دیا اور انہوں بے بھٹو صاحب پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا کہ وہ لیاقت میڈیکل کالج نہ جائیں- لیکن بھٹو صاحب نے نے ان حکام کو جواب دیا جب تک دعوت نامہ موجود ہے وہ اس تقریب میں جائیں گے اور شرکت کریں گے- اس پر مارشل لاء حکام نے اپنی بندوقوں کا رخ میری اور کالج کے منتظم/ پرنسپل بریگیڈیئر ایس ایچ اے گردیزی محروم کی طرف موڑ دیا اور مجبور کیا کے دعوت نامہ منسوخ کر دیا جائے لیکن ہم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا- پروگرام کے مطابق 13 اگست 1969ء کو بھٹو صاحب جام شورو کیمپس پہنچے  اور لیاقت میڈیکل کالج کے علاوہ حیدر آباد کے تمام کالجوں کے ہزاروں طلباء نے ان کا شاندار استقبال کیا- مارشل لاء حکام نے بھٹو سے کہا کے وہ سیاست پر بات نہ کریں اور اپنی تقریر شاہ عبداللطیف پر محدود رکھیں-

بھٹو صاحب کا تقریر کی ابتداء کرنے کا اپنا ہی انداز تھا- انہوں نے اجتماع کو بتایا کہ انھیں سیاست پر بولنے سے منع کیا گیا ہے- اور پھر کہا \”میں ایک سیاسی جانور ہوں- سیاست میرے خون میں رچی ہوئی ہے- وہ مجھے کس طرح سیاست پر بولنے سے روک سکتے ہیں- شاہ عبداللیطف اگر زندہ ہوتے تو وہ بھی ایک\”وحدت یونٹ\” کی مخالفت کرتے اور مارشل لاء حکام ان کو بھی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتے-

شہید ذوالفقارعلی بھٹو ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاست کی ایسی بے خوف سمت طے کی جس سے ہر سیاستدان اپنی سیاسی زندگی کی شروعات اسی سمت، بھٹو نظریات اور سوچ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے-

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ \”میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا\”

یقیناً انہوں نے غلط نہیں کہا تھا کیونکہ  آج بھی بھٹو کی سیاسی، سوچ و نعرہ لوگوں کے دل و دماغ میں موجود ہے-

کوٹ لکھپت کی جیل سے مورخہ 21 مارچ 1978 ء کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت کو کہا تھا کہ\” میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی (نواب محمد احمد خان)  کا خوں نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال جرم کر لیتا اور اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا-

مگر عدالت کو عداوت میں بدل کر، قانون کے سارے تقاضے پس پشت ڈال کر سچ کو قتل کیا گیا  سفاک لوگوں  نے بھٹو کی  آواز کا گلا گھونٹا چاہا اور وہ اس وقت کے فرعون تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔  مگر سوال آج بھی زندہ ہے، آواز آج بھی زندہ ہے-

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے

بھٹو اپنی بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود ایک انسان تھے- بلاشبہ اختیار و اقتدار کے اعلی مراتب پر ان سے بہت سی غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئیں لیکن 4 اپریل 1979 ء کی اندھیری رات میں انہوں نے عوام کے عظیم ہیرو کی حثیت سے کمال جراءت و استقامت سے پھانسی کے پھندے کو گلے لگا کر وقت کے آمرو جابر کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کر کے اپنے تمام گناہوں اور خطاؤں کی تلافی کر دی- ایک دلیر، جرّی اور بے باک قائد کے طور پر ملک و قوم کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر کے وہ اس صداقت کی زندہ جاوید شہادت بن گئے کہ جالب نے کہا؛

ٹوٹا ہے کہاں اس کا جادو
ایک نعرہ بنا ہے اس کا لہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments