انسان کے بارے میں بے یقینی کی پیدائش


آج کا کالم میں اپنے قارئین کی نذر کر کے اپنے ویک اینڈ کو ایک پروڈکٹو ویک اینڈ بنانے کی خوشی محسوس کرتے ہوئے، اس وقت سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہوں۔ میرے آج کے اس کالم کا نام ہی اس معاشرے کی ایک برائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کی زندگی میں اس کو کسی نہ کسی موڑ پر نشیب و فراز کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے، مگر کامیاب وہی شخص رہتا ہے، جو ان نشیب و فراز کے سکھائے ہوئے اسباق کو یاد رکھے۔

بہرحال چلتے چلتے “بے یقینی” کی وضاحت کرتی چلوں۔ ایک شخص کی “بے یقینی” سے مراد یہ ہے کہ آپ نہ تو اس شخص کواس کے کیے ہوئے کسی کام کا نہ تو اس کو کریڈٹ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کو اس قابل سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کی رائے کو کنسیڈر کیا جائے۔ اس کنٹیکسٹ میں بے یقینی کی پیدائش کا مطلب یہ ہو گا کہ جیسا آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے لوگوں سے بھی، اس خاص شخص کے بارے میں وہی رویہ اور برتاؤ رکھوانا چاہتے ہیں جو آپ کا اس متعلقہ شخص کے ساتھ ہے۔

روزمرہ کے مشاہدات میں سے ایک مشاہدہ “انسان کے بارے میں بے یقینی کی پیدائش” کی وضاحت کے سلسلے میں، آپ سب کے سامنے پیش کرتی چلوں۔ ہوا یوں کہ کچھ لوگ ایک مریض کی تیمارداری کے لیے اس مریض کے گھر گئے۔ مریض کے گھر میں اس مریض کے علاوہ باقی افراد بھی رہتے تھے۔ ان افراد میں سے ایک فرد نے اس مریض کی دوا تیار کرنے کو،، پانی ابالنے کے لیے چولھے پر رکھا اور ٹھنڈا ہونے پر اس پانی سے اس مریض کے لیے دوا تیار کر دی۔

اس سے پہلے کہ مریض اس فرد کے لیے دعا کرتا یا اس کو ایپریشیئیٹ کرتا، گھر کے باقی افراد نے جن کے ساتھ وہ مریض اچھا خاصا وقت پہلے ہی گزار چکا تھا، اس فرد کے اس  محبت، کیئر اور خلوص والے کام میں بھی اعتراض کرتے ہوئے مریض  سے کہنا شروع کیا کہ اس فرد نے تمھاری دوا کے لیے پانی کو بوائل  کیا ہے، جو کہ سراسر ایک غلط عمل ہے اور یہ بھی کہ اس طرح تیار کی ہوئی دوا صحت کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہو جاتی ہے۔

مریض بے چارہ پہلے ہی ڈرا ہوا تھا، سونے پر سہاگہ، اس کی دوا کے بارے میں اس طرح کی منفی رائے نے اسے مزید خوف زدہ کر دیا اور اس نے وہ دوا پینے سے انکار کر دیا۔ بے یقینی کی یہ کیفیت  اس شخص کے کیے جانے والے ہر کام پر اعتراض کر کے بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ جن لوگوں کے سامنے بار بار اس متعلق شخص کے بارے میں اعتراض کیا جائے گا، وہ لوگ اس شخص کے بارے میں بے یقین ہو جائیں گے اور  یہ چیز اس متعلق اور دوسرے افراد کے درمیان، جن کے سامنے بار بار اعتراض کیا جا  رہا ہے، ٹرسٹ ڈویلپمنٹ میں رکاوٹ بنے گی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس فرد کی خلوص نیت سے کی گئی  خدمت کو غلط نام کیوں دیا گیا؟ اس کا نقصان کس کو ہوا؟ مشاہدہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر ایسے لوگ کسی کے اچھے اور خلوص نیت سے کیے گئے کام کو اس کی برائی میں تبدیل کر دیتے ہیں، جس کی وہ اپنے اردگرد کے لوگوں میں نیک نامی یا مقبولیت ہرگز نہیں  چاہتے۔

یہ منفی رویہ ان لوگوں میں پایا جاتا ہے، جنھوں نے ہمیشہ دوسروں کو ڈاؤن کر کے خود کو اپ کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی اہمیت کے ساتھ  کسی دوسرے کی اہمیت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ایک شخص کے بارے میں بے یقینی صرف وہی افراد پیدا کر سکتے ہیں، جو ہر وقت اس شخص کے ساتھ ہوتے ہوں۔ اور بے یقینی کی کیفیت  ہر اس فرد کے بارے میں پیدا کی جا سکتی ہے، جو کسی بزنس میں، کسی گھر میں یا کسی بھی دوسری فیلڈ میں نیا نیا داخل ہوا ہے۔

اوپر دی گئی مثال میں چونکہ مریض کا ایکسپوژر اتنا زیادہ نہیں تھا، اس لیے اس نے کسی قسم کی تحقیق کیے بغیر ہی اس شخص کے بارے میں ان لوگوں کی رائے کو ماننا پریفرکیا۔ کسی شخص کا کسی کام کے بارے میں ایکسپوژر نہ ہونا اور کم نالج رکھنا اس کے اور اس دوسرے شخص کے درمیان ٹرسٹ ڈویلپمنٹ میں رکاوٹ کے طور پر ایک ٹول کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نقصان اس شخص کو تو پہنچتا ہی پہنچتا ہے، جس کے بارے میں بے یقینی پیدا کی جا سکتی ہے، مگر ساتھ ساتھ وہ شخص بھی ذہنی سکون حاصل نہیں کر پاتا جس کو اس متعلقہ شخص کے بارے میں بے یقین کیا جاتا ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ میرا انسانی رویوں کے بارے میں انفارمیٹو کالم میرے قارئین کے لیے زندگی کے کسی  نہ کسی موڑ پر مشعل راہ کے طور پر ضرور استعمال ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).