آپ کس کو ووٹ دے رہے ہیں؟


پاکستان میں الیکشن کا انعقاد دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کی طرح ایک اہم قومی مرحلہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ عوام اپنے مستقبل کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ الیکشن میں ہار جیت سے بڑھ کر اہم بات یہ کہ عوام میں سیاسی و قومی شعور بیدار ہو اور وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو مت دہرائیں۔ یہ مختصر تحریر اسی ضمن میں ایک قدم ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ مدِنظر رکھنی چاہیے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اور افراد جو آپ سے ووٹ کے طلب گار ہیں ان کی اپنی ذہنی سوچ کیا ہے؟ کسی سیاسی جماعت کی سوچ اس کا ”منشور“ ہوتا ہے۔ لہذا ایک بار کسی جماعت کو ووٹ دینے سے پہلے اس کے سیاسی منشور کا مطالعہ ضرور کریں۔

دوسری بات یہ معلوم ہونی چاہیے کہ ایک جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں اور افراد کی حقیقی ذمہ داری کیا ہے؟ اور کیا وہ اپنی اس ذمہ داری سے واقف ہیں اور کیا ان میں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہے؟

جب تک ان سوالوں کے جوابات آپ کو معلوم نہ ہو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا آپ کے اپنے حق میں نقصان دہ ہو گا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی شخص کے پاس علاج کے لیے جائیں مگر اس کو علاج کرنا نہ آتا ہو مگر آپ پھر بھی کسی کے کہنے پر اس شخص سے دوائی لے لیں یقیناً آپ کی یہ حرکت کسی بھی طرح سے عقل مندی تصور نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح سے حکومت کرنے کے لیے ایسے افراد کو چن لینا جن کو اس کام کی نہ سمجھ ہو اور نہ ان میں صلاحیت ہو ایک انتہائی غیرذمہ داری کا کام ہے جس کی سزا آپ سمیت پوری قوم کو بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے جب بھی ایسا موقع آپ کی زندگی میں آئے برائے مہربانی سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔

سیاسی افراد/نمائندوں کی ذمہ داریاں:

یاد رکھیں کہ وہ سیاسی نمائندے جو قومی یا صوبائی اسمبلی میں آپ کے ووٹ پر کامیاب ہو کر جاتے ہیں ان کا سب سے اہم کام ”قانون سازی“ ہوتا ہے۔ یعنی ایسے قوانین یا اصول بنانا جس سے ملک کے عوام اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں امن و آرام سے رہ سکیں اور ترقی حاصل کرنے کے لیے ان کے راستے کی روکاوٹیں دور ہوں۔

سڑکیں پل اسکول کالج ہسپتال وغیرہ کا بنانا اور چلانا مختلف اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہےاور یہ ادارے اپنا کام اسی طرح کرنے کے پابند ہیں جس طرح عوام اپنا روز مرہ کے کام کرنے کے پابند ہیں۔ اگر آپ کے علاقے میں سڑک گلی یا نالی ٹوٹی ہوئی ہے تو یہ آپ کے سیاسی نمائند ے کا نہیں بلکہ اس ادارے کا کام ہے جو اس ذمہ داری کے لیے حکومت سے پیسے لیتا ہے۔

ایک الجھاؤ جو سیاسی نمائندوں کی طرف سے عموماً پیدا کیا جاتا ہے وہ یہ کہ وہ گفتگو کا رُخ بہت بڑے عالمی مسائل کی طرف رکھتے ہیں اور آپ کے علاقے کے مسائل پر بات نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آپ کے علاقے کا نمائندہ آپ کو بجلی کے بحران کے ختم کرنے کا یقین دلائے گا یا دہشت گردی کے خاتمے کی بات کرے گا یا پورے پاکستان میں تعلیمی انقلاب کی بات کرے گا یا پوری دنیا میں پاکستان کے مقام کو بہتر کرنے کی بات کرے گا وغیرہ۔ یاد رکھیں اتنے بڑے مسائل ایک بندے کی کوشش سے حل نہیں ہوتے ان کو حل کرنے کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں جو حکومت کے دباذ سے ہٹ کر کام کرتے ہیں اور ان میں قابل باصلاحیت افراد کام کرتے ہیں۔ سیاستدان تو 5 سال حکومت کرکے چلے جاتے ہیں اور اگلے 5 سال کوئی دوسری جماعت حکومت کرتی ہے۔ لیکن پالیسیوں پر عمل ادارے کرتے ہیں سیاسی افراد نہیں۔ سیاسی افراد زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ ان بڑے مسائل کے لیے ادارے بنا دیں یا اگر ادارے بن چکے ہیں تو ان کی کارکردگی کو اپنے دورِ حکومت میں بہتر کردیں۔

مثال کے طور پر جرائم کا خاتمہ کرنا پولیس کا کام ہے۔ اگر آپ کا سیاسی نمائندہ یہ کہے کہ وہ حکومت میں آکر جرائم کا خاتمہ کرے گا تو یقیناً اس کا مطلب یہ کہ وہ پولیس پر زور دے گا کہ وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرے نہ یہ کہ وہ خود جا کر مجرموں کو پکڑنا شروع کردے گا۔ اسی طرح دیگر مسائل کے حل کے لیے سیاسی نمائندے کا کام حکومتی اداروں کے کام بہتر بنانا ہے۔ اور اس سے یہی سوال ہونا چاہیے کہ وہ بہتری کیسے لے کر آئے گا؟

اس لیے اپنے علاقے کے سیاسی نمائندے سے یہ سوال کریں کہ وہ آپ کے علاقے کی بہتری پر پہلے بات کرے کیونکہ یہ اس کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ بڑے منصوبوں پر اگر وہ کام کرنے کا دعویٰ کرے تو اس سے یہ سوال کریں کہ کیا اس کو اس کام کی کوئی سمجھ ہے یا وہ محض آپ کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہا ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیاسی نمائندے اسمبلی میں جا کر کام کرنے کی باقاعدہ تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عام آدمی کام کرنے کی تنخواہ لیتا ہے۔ سیاستدانوں کی تنخواہ عوام کے پیسے سے ادا ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے سیاسی نمائندؤں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب آپ نے جو پورے 5 سال تنخواہ لی ہے اس سے عوام کے لیے کیا کیا؟ اگر ہماری دوکان یا دفتر میں کوئی ملازم تنخواہ تو پوری لے لیکن کام کم کرے تو کیا ہم اس کو کوئی رعایت دیں گے؟

سیاسی نمائندوں سے کرنے کے سوال:

کیونکہ آپ کا ووٹ اس ملک میں آپ کے مستقبل کا تعین کرتا ہے اس لیے آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اپنے علاقے میں موجود سب سیاسی نمائندوں سے ایک بار یہ سوالات ضرور کریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ اور جو نمائندہ ان سوالات کے سب سے بہتر جواب دے ووٹ صرف اسی کو دیں چاہے وہ جس مرضی پارٹی کا ہو۔ یاد رکھیں آپ کا سب سے اولین واسطہ سیاسی نمائندے سے پڑتا ہے پارٹی سے نہیں۔

یہ یاد رکھیں کہ اپنے سیاسی نمائندے پر اس بات کے لیے زور دیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ وہ آپ کے علاقے کی بہتری کے لیے کیا کام کرے گا؟ اکثر نمائندے بہت بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر الیکشن کے بعد اپنے علاقے میں ہی نظر نہیں آتے اس لیے نمائندوں سے یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ وہ اس انتخابی حلقے کی بہتری کے لیے کیا کریں گے اور کیسے کریں گے؟

خلاصہ کلام:

ووٹ دینے سے پہلے اپنے علاقے کے انتخابی امیدواروں سے ان سوالوں کے جوابات پوچھیں اور اپنی سمجھ سے فیصلہ کریں کہ ووٹ کس کو دینا چاہیے:

1۔ آپ (یعنی سیاسی نمائندے ) کی اپنی رہائش کس علاقے میں ہے؟
2۔ ایک سیاسی نمائندے کا اصل کام کیا ہوتا ہے؟

3۔ آپ کا اِس کام (یعنی قانون سازی) کا کتنا تجربہ ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ میں اس کام کی صلاحیت کتنی ہے؟ کوئی مثال دیں کہ اگر آپ ہمارے نمائندے منتخب ہو گئے تو پانچ سال میں کون سے پانچ قوانین بنائیں گے؟

4۔ کیا آپ نے ماضی میں اس علاقے کی بہتری (یا سرکاری اداروں کی بہتری)کے لیے کوئی عملی کام کیا ہے؟ اس کا ثبوت دیں۔
5۔ اس علاقے کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ آپ ان کو حل کیسے کریں گے؟ پچھلے پانچ سال میں آپ یا آپ کی جماعت نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).