یوسف حسن صاحب: یہ شہر آپکو ترسے گا چشم تر کے بغیر


اصغر مال کالج سے سیٹلائیٹ ٹاون کی طرف آتے ہوئے ہم ایک سید پور روڈ پر ایک گلی کنارے رک گئے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے وہاں فٹ پاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ”یہاں یوسف حسن صاحب ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے میں اپنی پوتی کا ہاتھ لیے بیٹھے ہوتے ہیں“۔ میرے ذہن میں ایک تصویر سی بن گئی۔ دن گزرتے گئے۔

اب کل سے شہر میں خبر گرم ہے کہ یوسف صاحب چلے گئے لیکن مجھے تو وہ اب بھی وہیں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ سردیوں کے دن، دس بجے کا وقت، کمر کے گرد چادر لپیٹے، دھوپ سینکتے اور اپنی پوتی سے باتیں کرتے ہوئے۔ ٹریفک کے شور سے بے خبر اپنے شور میں گم۔ اپنے نظریے سے طویل رفاقت، غیر مشروط محبت، مزاج میں درویشی، رہن سہن میں سادگی اور دوٹوک لیکن فکر انگیز رائے۔

یوسف صاحب پبلک انٹیلکچول امیج کے امین تھے۔ ایک ایسا مفکر جو گلی محلے، چوک چوراہے، کھوکھے ڈھابے پر بغیر کسی تفریق ہر شخص کے لیے میسر ہوتا۔ دریا زمینوں کو سیراب کرتا رہا اور وہ سینوں کو۔ نہ دریا تھکتا ہے نہ یوسف صاحب تھکے۔ اجلے پن کے علاوہ بے نیازی بھی دونوں کی مسلمہ۔ دونوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سیراب ہونے والے کس رنگ، قبیلے یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتہائی مختصر وجود کے مالک یوسف صاحب کلاس روم سے کالج اور وہاں سے شمع ہوٹل تک وہ بے تکان سو چتے اور بیان کرتے چلے جاتے۔ دوسروں کی بات سنتے، سگریٹ سلگاتے، مسکراہٹ بکھیرتے اور اپنی بات شروع کردیتے۔ سگریٹ ان کے لبوں سے اسی صورت میں ہٹتی کہ چائے کا پیالہ سامنے دھرا جائے۔

نوجوانوں سے ان کا تعلق صرف کمرہ جماعت تک محدود نہ تھا بلکہ درختوں کے سائے، شہر کی گلیاں اور گلیوں کے چائے خانے اور ادبی محفلیں سب تک اس کا سلسلہ پھیلا ہوتا۔ علم نہیں وہ گیان بانٹتے تھے، استاد نہیں وہ گرو تھے جگت گرو۔

ان کا مارکسزم کتاب سے کتاب تک محدود نہ تھا۔ بلکہ ساتھ ساتھ عملی جدوجہد کا مشکل اور پرصعوبت سفر بھی جاری رکھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں مارکسی نظریات پہ بات کرنے والے جس قسم کے لوگ ہیں اس کا مظاہرہ میں کئی جگہ دیکھ چکا ہوں۔ اپنے تئیں تیس مار خاں قسم کے مارکسی مفکر لیکن لیکچر نما تقریر کرتے تو حیرت ہوتی کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے، یہ جغادری ہمیں انسانی ہمدردی اور مظلوموں کے مسائل کیا سمجھائیں گے۔

ادھر جب سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا تو یہاں ترقی پسندوں کی مزاحمت بھی لڑکھڑانے لگی تھی لیکن یوسف صاحب ڈٹ گئے۔ جس نظریے کو خون سے کھینچا تھا اسے کیسے جھٹلاتے۔ وہ تو اپنے اردگرد کے مظلوموں کی جنگ لڑ رہے تھے۔ سو آخری دم تک جاری رہی۔

جس دن عاصمہ جہانگیر فوت ہوئیں پہلی دفعہ ڈاکٹر صلاح الدین درویش کو شکستہ دل اور مایوس دیکھا۔ کل سے ان کے کمنٹ پڑھ کے انداذہ کر سکتا ہوں کہ یوسف حسن صاحب کے چلے جانے پر وہ کس کیفیت میں ہیں۔ اور فقط دو تین مہینوں کے مختصر عرصہ میں ہر نئی کلاس کے طلبہ سے مانوس ہو کر ان کے دکھ درد میں شریک ہونے والے سراپا احساس ڈاکٹر روش ندیم بھی ان کے ساتھ تین دہائیوں کے بندھن ٹوٹنے پر جیسے ٹوٹ چکے ہوں گے۔

شدید ترین اختلاف کے باوجود نرم خو اور دل کے اجلے منظر نقوی آج درد کی تصویر بنے ہیں۔ شعر و شاعری کے معاملے میں اختر عثمان صاحب سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہوگی؟ اختر صاحب نہ صرف انہیں بہت اچھا شاعر کہتے ہیں بلک شعر و ادب کے معاملے میں ان کی بصیرت کے بھی قائل ہیں۔ اس کا ایک اظہار ان کی طویل نظم تراش پر یوسف صاحب کا دیباچہ ہے۔

دیو آنند نے کہا تھا کہ موت ایک خیال ہے جیسے زندگی ایک خیال ہے۔ نہ سکھ ہے نہ دکھ ہے۔ نہ دین ہے نہ دنیا۔ نہ انسان ہے نہ بھگوان۔ آگر یہ بات مان لی جائے پھر بھی مشکل کم نہیں ہوتی۔ خیال کا خیال سے بچھڑنا بھی کم المناک تو نہیں۔ موت کی فلسفیانہ سطح پر تفہیم تو ممکن ہے لیکن اصل مرحلہ تو احساس کے کچوکے اور وابستگی کے نشتر ہیں۔ فلسفی گلزار نے کہا تھا ’موت ایک پل ہے بابو موشائے‘ شاعر گلزار کہتا ہے ’اک چھوٹا سا لمحہ ہے جو ختم نہیں ہوتا، میں لاکھ جلاتا ہوں یہ بھسم نہیں ہوتا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).