یوسف حسن کو کس نے مارا؟


 

ترقی پسند سیاست اور ادب کا بڑا نام یوسف حسن چلے گئے۔ کہتے ہیں انہیں کینسر کے مرض نے ہم سے چھین لیا۔ سب صبر کر کے بیٹھ گئے، کینر اور موت کے سامنے کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ یوسف حسن جو عمر بھر لڑتے آئے تھے اور بہت سوں کو لڑنے کا ڈھب سکھا کے بھی گئے ، نے اس دوپہر اچانک اپنی تمام لڑائیاں ختم کر دیں۔ ان کے صاحبزادے شیراز حسن بتاتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں وہ تیسری بار ہسپتال سے واپس آئے تھے۔ پہلی بار طبعیت بگڑی تو اپنے قدموں پہ چل کر ہسپتال سے گھر لوٹے، دوسری بار انہیں وہیل چئیر پر بیٹھ کر گھر آنا پڑا اور تیسری مرتبہ ناتوانی کا یہ عالم تھا کہانہیں سٹریچر پہ کے ذریعے گھر واپس لانا پڑا۔ طبعیت ان کی گزشتہ کئی ماہ سے بگڑتی چلی آ رہی تھی مگر انہوں نے اس وقت تک کسی کو خبر نہ ہونے دی جب تک معاملہ بہت آگے نہ چلا گیا۔ گزشتہ اپریل میں عوامی ورکرز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور شرکت کی، بیماری کا سن کر دوست احباب تیمارداری کے لیے پہنچے تو ان کی طبیعت اچانک سنبھل سی گئی۔ پرانی باتیں، نوجوانی کی جدوجہدکے دنوں کی باتوں اور اپنا غیر مطبوعہ کام دوستوں کو سناتے ان کی توانائیاں جیسے واپس لوٹنے لگیں مگر شاید یہ بجھتے چراغ کی آخری لو تھی۔

شیرازحسن کے بقول ان کے والد گرامی وفات سے قبل اپنی غیر مطبوعہ شاعری کو کتاب کی شکل دینے کے لیے حتمی نسخہ ان کے حوالے کر چکے تھے جسے اب شاید جلد ہی شائع کر دیا جائے گا۔ تا ہم اس سوال کا جواب شائد ہی کسی کے پاس ہو کہ وہ کون سی وجوہات تھیں جو اپنی شخصیت میں ایک عہداور علم و ادب کی دنیا میں یسے مستند نام کے لیے اپنی زندگی میں کتاب شائع کرنے کی راہ میں مانع رہی ہوں گی۔اگر یہ کہا جائے کہ یوسف حسن اس عہد کی وہ آخری شخصیت تھے جو سیاست اور معیشت کے طالب علموں کے لیے ایک اکیڈیمی کا درجہ رکھتی تھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ کم از کم راولپنڈی اور اسلام آباد کی حد تک ایسی کوئی دوسری شخصیت دکھائی نہیں دیتی جس کے دروازے دوستوں اور اہل علم شخصیات کے لیے ہی نہیں بلکہ اجنبیوں کے لیے بھی ہمہ وقت کھلے رہتے تھے اور یوسف حسن تھے کہ بائیں بازو کی تحریکوں سے لے کر عالمی معاشی نظاموں تک، ہر سوال کا تشفی بر جواب دینے میں کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے۔

یوسف حسن کی سیاسی ، علمی اور ادبی خدمات سے تو سب ہی آگاہ تھے مگر مگر بہت کم یہ خبر رکھتے تھے کہ تام عمر درس و تدریس کی ذمہ داریاں کامل فرض شناسی، دیانتداری اور لگن کے ساتھ انجام دینے والی اس قابل قدر شخصیت کو ریٹائرمنٹ کے بعد کن مصائب اور ذہنی صدمات سے گزرنے پر مجبور کیا گیا۔ بائیں بازو کے افکار کے برملا اظہار کی پاداش میں انہیں با عزت طور پر سبکدوش کرنے کی بجائے مختلف حیلوں، بہانوں سے ان کی پنشن اور مراعات روک لی گئیں۔ تعلیمی بیوروکریسی ایک مخصوص فسطائی مذہبی سیاسی گروہ کے زیر اثر ہونے کے باعث یوسف حسن کی ہر صدائے احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ انہوں نے کئی خیر خواہوں کا یہ مشورہ رد کر دیا کہ رشوت دے کر اپنا کام کرا لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو عمر بھر غلط کام نہیں کیا، دوسرے اپنا جائز حق نا جائز طریقے سے کیوں لوں؟

آج شاید کئی لوگ یہ کہتے پائے جائیں کہ یوسف حسن صاحب ہمیں بتاتے تو ہم کچھ کر سکتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دس برسوں میں ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے داد رسی کی کوئی امید ہو سکتی تھی۔ دوسروں کے علاوہ انہوں نے موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ڈائریکٹر انسانی حقوق سیل، سپریم کورٹ آف پاکستان، صوبائی محتسب پنجاب اور گورنر پنجاب تک کو اپنے ساتھ روا نا انصافی کی بابت تفصیل سے آگاہ کیامگر کہیں شنوائی نہ ہو سکی۔شاید اس تجاہل عارفانہ کی بدولت ریاست پاکستان ایک بار پھر یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ پیار اور عوامی حقوق کا پرچار کرنے والے اہل علم لوگ نہیں بلکہ بندوق اٹھانے اور نفرت کا کاروبار کرنے والے ہی ریاست کے سگے بیٹے ہو سکتے ہیں۔ تمام عمر کی محنت شاقہ کے بعد ریٹائرمنٹ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب انسان ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر زندگی کے کچھ برس اپنی مرضی کے مطابق سانسیں لینے کی خواہش کرتا ہے مگر ہمارے یوسف حسن یہ وقت بھی مالی پریشانیوں کے بوجھ تلے دب کر جینے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بھلے یوسف حسن کی موت کا ذمہ دار کینسر کو قرار دیں مگر انہیں اصل کینسر تو اسی وقت لاحق ہو گیا تھا جب بغض اور عناد کے مارے ایک ٹولے نے ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیا تھا۔ یہی ٹولہ ان کی موت کا اصل ذمہ دار بھی تصور ہونا چاہئے۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).