سوشل میڈیا پر فحش اشتہارات اور جنسی کھلونوں کی تشہیر!


ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے سوشل میڈیا کو ہماری زندگی کا لازمی حصہ بنا دیا ہے۔ یہ اب کوئی تفریح نہیں بلکہ ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ کاروبار، معلومات حتی کے بعض ادارے اپنی آفیشل سرگرمیاں سوشل میڈیا کی زینت بناتے ہیں۔ سیاسی اور دینی جماعتیں سرگرم سوشل میڈیا نیٹ ورکس بنا چکی ہیں، ہر شعبہ زندگی کی شخصیات اب سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر لوگوں سے رابطے کی کوشش کرتی ہیں۔ یقینا اس میں ہر ایک کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ دینی معلومات، کاروباری مقاصد، روزگار کا حصول اور اپنے نظریات کا پھیلاؤ۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں آپ ہر نظریے اور سوچ کے تحت ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں۔ اپنی مرضی کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ اب ہمیں اس کے ساتھ چلنا ہے اس سے چھٹکارا ممکن نہیں، دور نہیں رہا جا سکتا۔

میرا موضوع سوشل میڈیا پر ہماری مرضی کے بغیر آ جانے والے اشتہارات ہیں۔ دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، یو ٹیوب کے علاوہ دیگر ویب سائٹس اور نیٹ ورکس پر فحش ترین اشتہارات کی بھرمار ہے۔ مختلف تجارتی ادارے ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کو رقم ادا کرکے اپنے اشتہارات دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو اپنی مخصوص ویب سائٹ کی طرف لانا ہوتا ہے جہاں آن لائن چیزوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جو انتہائی گھٹیا حرکت کی جاتی ہے وہ خواتین کی فحش تصاویر کے ساتھ ان سے متعلقہ کوئی چیز کا اشتہار ہوتا ہے۔ آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو ٹائم لائن پر چند پوسٹوں کے بعد آپ کے سامنے ایسے اشتہارات ضرور آ جاتے ہیں۔ حتی کہ جنسی کھلونوں کے اشتہارات کی بہتات ہے۔ آپ یقین نہیں مانیں گے لیکن ایک افریقی ملک نے باقاعدہ اس حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ کھلونے اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان شادی کرنے کو تیار نہیں یا شائد قابل نہیں۔ یہ اب باآسانی دستیاب ہیں اور اکثر اشتہارات ہی ان کے ہوتے ہیں۔ ان کی واضح اور نمایاں تصاویر کے ساتھ اشتہارات دئیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی باشعور انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ اس رحجان کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں کچھ عرصہ قبل تک اس قسم کی خریدوفروخت کا تصور بھی نہ تھا لیکن آن لائن شاپنگ نے اس کو اتنہائی آسان بنا دیا ہے۔ فحش تصاویر کے ساتھ ان کے اشتہارات سوشل میڈیا ویب سائٹس پر دستیاب ہیں۔ جنسی صحت سے متعلق ادویات بغیر کسی قانون ضابطے کے فروخت ہو رہی ہیں۔ کسی بھی ادارے کے چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ان ادویات کے استعمال سے کتنے انسان موذی بیماریوں کا شکار بننے کے ساتھ ساتھ بہت سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ وسائل کے ضیائع اور انسانی جانوں کے اس قتل عام کے بارے کسی کو احساس تک نہیں ہے۔ اسی طرح جنسی کھلونوں کی مقبولیت آنے والے عرصے میں کیا گل کھلائے گی، کوئی بھی اس بارے سوچ نہیں رہا۔ یہ ایک خاموش زہر ہے جو کہ انجانے میں پھیلایا جا رہا ہے۔ صرف کلک حاصل کرنے کے لئے ہر چیز کے اشتہار کو فحش سے فحش ترین بنایا جاتا ہے تاکہ نوجوان نسل کو مائل کیا جا سکے۔

اس سارے معاملے کا ایک پہلو ملکی زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی بھی ہے۔ اکثر ویب سائٹس غیر ملکی ہیں یا ملکی ویب سائٹس کو بھی خرید لیا گیا ہے۔ اس طرح تمام تک آمدن ملک سے باہر جا رہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ بھی فروخت ہو چکی ہے۔ اس سے ایک تو ملکی کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کا نقصان ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آن لائن شاپنگ کو بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے۔ حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ آن لائن خرید و فروخت ملکی روایات اور معاشرے کے لئے مثبت ہوں۔ اگر کچھ چیزوں کی خرید و فروخت اخلاقیات کو متاثر کر رہی ہے، کوئی ادارے اپنی پراڈکٹس فروخت کرنے کے لئے فحش اشتہارات کا سہارا لے رہا ہے، جنسی کھلونے اور ادویات کے ذریعے بے راہ روی کا شکار بنایا جارہا ہے یا کوئی بھی ایسی سرگرمی جو کہ ہمارے معاشرتی روایات کے منافی ہوتو اسے پر پابندی ہونی چاہیے۔ پی ٹی اے کو ایسے اشتہارات روکنے کے لئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ سوشل میڈیا کو کاروباری مقاصدکے لئے ضرور استعمال کیا جائے لیکن اس سے اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالا جائے۔ جن ممالک میں یہ سب ہوا ہے وہاں پر شدید قسم کےمسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ تباہی کا شکار ہوکر ہی واپس پلٹا جائے۔ کچھ فیصلےبروقت بھی کر لینے چاہیئں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو چاہئے کہ اس بارے سنجیدگی سے غور کریں۔ سوشل میڈیا اب زندگی کا حصہ ہے اس کو مفید بنانے کی ضرورت ہےنہ کہ یہ معاشرتی بگاڑ کا ہتھیار ہو اور نوجوان نسل کی تباہی کا باعث بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).