جیپ کی سواری کہاں جائے گی؟


پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی میں جیپ کی سواری کا چرچا ہے اس کے ساتھ ہی اس بات کا غلغلہ بھی کہ چیف جسٹس ثاقب نثار، نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے علاوہ نگران صوبائی اور قومی حکومتیں بالکل غیر جانبدار ہیں۔ ان سب لوگوں یا اداروں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انتخاب میں کون کامیاب ہو تا ہے۔ اس لئے ان کی طرف انگلی اٹھانا یا یہ شبہ کرنا کہ انتخابات سے پہلے کئے جانے والے انتظامی یا عدالتی اقدامات کا انتخابات سے کوئی تعلق ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان اداروں اور معزز شخصیات کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے کے مترادف ہو گا۔ یوں تو پاکستانی معاشرہ کی یہ روایت بہت مضبوط ہے کہ جب تک کوئی اقتدار میں ہو اور فیصلے کرنے کا مجاز ہو تو اس کی نیت اور نیک دلی پر شبہ بھی گناہ ہوتا ہے۔ البتہ اقتدار اور اختیار سے علیحدہ ہونے کے بعد کسی بھی شخص کے قول و فعل، کردار اور اقدامات کے بخیے ادھیڑ کر ان کی ’اصل‘ صورت جو عام طور سے قبیح اور کریہہ ہوتی ہے، سامنے لائی جاتی ہے۔ مشتے از خروارے کے طور پر سابق آرمی چیف اسلم بیگ کی اعلیٰ عدالتوں میں دھکے کھانے کی روداد اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاسی جماعت کی حالت اور ان کی شخصیت کے حوالے سے سامنے آنے والے تبصروں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ سے سیکھنا خواہ یہ کتابوں میں پڑھنے کی بجائے ہم نے خود اپنی آنکھوں سے رقم ہوتی دیکھی ہو، اسی طرح ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے جس طرح صاحبان اقتدار کو ان کی غلطیوں پر ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

25  جولائی کو ہونے والے انتخابات کو ملک میں جمہوریت کے علاوہ قومی تقدیر کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ ہر سوچنے سمجھنے والے کے پاس اس حوالے سے اپنے دلائل ہوں گے اور متعدد وجوہ بھی ضرور ہوں گی لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ انتخابات یوں بہت اہم ہو گئے ہیں کہ ان میں پولنگ والے دن براہ راست مداخلت اور دھاندلی کرنے کا امکان بہت کم ہو گا۔ یوں تو اس مقدس ملک کے کئی بیورو کریٹ، صحافی اور دانشور ماضی کے حوالے سے ایسی کہانیاں بیان کرسکتے ہیں جب لوگوں کی رائے کا ’احترام‘ کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا جاتا تھا۔ یعنی ووٹ دینے کا حق دے کر عوام کو بھی خوش کر دیا اور بعد میں بیلٹ بکسوں کو مرضی کی پرچیوں سے بھر کر یا دیے جانے والے ووٹوں کی گنتی حسب ضرورت و حکم کر کے قوم کی ضرورتوں کو بھی پورا کر لیا گیا۔

یہ قومی ضرورت عام طور سے حاکم کے اقتدار سے منسلک ہوتی تھی۔ اس طرح سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا محاورہ ہر انتخاب کے موقع پر اپنی اہمیت تسلیم کروا لیتا تھا اور اردو لغت میں اس کی عمر فانی میں چند مزید برسوں کا اضافہ ہوجاتا۔ بس سابق فوجی حکمران جنرل (ر) یحیٰ خان نے 1970 کے انتخابات کے موقع پر خفیہ رپورٹوں کو سچ مان کر ووٹوں کی گنتی میں کرشمہ سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اس کے نتیجہ میں ایسا فضیحتا ہؤا کہ بے چارے بوڑھے جرنیل کو نصف ملک ’دان‘ دے کر پاکستان کو بچانا پڑا۔ اب اس بچے کھچے پاکستان میں ایک ایسا وقت آن پڑا ہے کہ پولنگ والے دن کو کنٹرول اور مینیج کرنے کی صلاحیت مفقود یا بے اثر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسی لئے یہ قیامت کا دن آنے سے پہلے ہی کوئی ایسے اشارے دینے کی ضرورت ہے جن سے ووٹ دینے والوں پر واضح ہوجائے کہ اس بار قوم کا مفاد کس طرف ووٹ ڈالنے میں ہے اور اس کے کیسے نتائج ملک کو کامرانی کی طرف لے جائیں گے۔

یہ چونکہ ایک قومی مسئلہ ہے اور ملک کے سب ادارے اور اہم شخصیات پر یکساں طور سے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق انتخابات کو ’شفاف اور منصافانہ‘ بنانے میں کردار ادا کریں اس لئے کچھ سفید پوش اگر کسی گمراہ امید وار کو راہ راست پر لانے کے لئے دھول دھپا کرتے ہیں تو نگران حکومت کو ’نظر انداز‘ کرنا پڑتا ہے، عوامی بہبود کے لئے کام ہو رہا ہو تو ملک کے منصف اعلیٰ کو کسی بدنام زمانہ سیاست دان کے ساتھ نامکمل ہسپتال کے منصوبہ کا معائنہ کرنے اور وسائل فراہم کرنے کا حکم دینا پڑتا ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن کو اپنا قومی فریضہ ادا کرنے کے لئے ایسے امیدواروں کو ’جیپ ‘ کا نشان الاٹ کرنا پڑتا ہے جو قوم کی پریشانیوں کو سمجھتے ہیں اور مل کر بدعنوان اور گمراہ سیاست دانوں سے اسے بچانے کی کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اب نیک نیتی سے کئے گئے ان اقدامات کو انتخاب سے پہلے دھاندلی کہہ کر اگر کوئی سیاست دان اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو چیف جسٹس، نیب یا الیکشن کمیشن کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے تو کمال نیک نیتی سے ایک بار پھر اعلان کردیا ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی کمپین نہیں چلاتے۔

حتیٰ کہ الیکشن کمیشن نے تو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے ایک ایسے امید وار سے جواب بھی طلب کرلیا ہے جس نے اپنے انتخابی اشتہاروں پر آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تصویریں آویزاں کی تھیں۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ دونوں شخصیات اس امیدوار کی رشتہ دار ہیں جو ان کی تصویریں انتخابی بینرز پر آویزاں کی گئی ہیں۔ اس طرح قوم کو پہلی بار علم ہؤا کہ انتخاب میں حصہ لینا ہو تو بینر پر تصویریں رشتہ داروں ہی کی لگانی چاہئیں۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے والے پی ٹی آئی کے امید وار ناصر چیمہ سے تحریری جواب طلب کیا گیا ہے۔ شاید وہ اپنے جواب میں یہ واضح کردیں کہ پاکستانی ثقافت میں آرمی چیف اور مفاد عام کے لئے متحرک چیف جسٹس کے ساتھ تو ہر شہری رشتہ داری محسوس کرتا ہے، اس لئے انہوں نے اگر ان معزز شخصیات کی تصاویر کے سائے میں آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو کیا برا کیا ہے۔

سب مانتے اور جانتے ہیں کہ پاک فوج اور اس کے سربراہ قومی سلامتی کے نگہبان ہیں ورنہ سیاست دان تو اسے بیچ کر ہی کھا جاتے۔ اسی طرح چیف جسٹس تو بذات خود بار بار یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ وہ خود بھی آئین کی پاسداری کریں گے اور باقی سب سے بھی آئین کے مطابق عمل کروائیں گے۔ اب ملک کا آئین ہی چیف جسٹس کو خود کو سمجھنے اور سمجھانے کا اختیار دیتا ہو تو آئین وہ تو نہیں ہو سکتا جو کتابوں میں لکھا ہے بلکہ ان الفاظ کے وہی معنی مؤثر ہوں گے جو چیف جسٹس اپنی زبان سے ادا کردیں گے۔ اب کسی میں دم ہے تو اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لے۔ گزشتہ ماہ اپنی مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی نے تو قائد ایوان کو جھوٹا اور خائن قرار دینے اور عہدے سے معزول کرنے کے عدالتی فیصلہ کے بعد آئین کے بارے میں رائے دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بس چند ماہرین اور ناکام سیاست دان اسے ’عدالتی آمریت‘ قرار دے کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اب تو وہ نام نہاد قومی اسمبلی بھی موجود نہیں ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس کی قیادت میں نگران حکومت معاملات کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کی مجبوریوں کو ان سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے۔

معاملہ دراصل 25 جولائی کو برپا ہونے والے معرکہ کا ہے۔ بد عنوان اور بد نام زمانہ نواز شریف کو بے اثر کرنے اور انہی کی بات ان کے منہ پر مارنے کے لئے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ تو انتخابات میں عوام کی رائے سے ہو گا، ہر ذمہ دار شہری اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔ جب ملک کی سپریم کورٹ واضح کرچکی ہو کہ ایک شخص کا کردار کیسا ہے تو اس فیصلہ کی لاج رکھنے کی ذمہ داری تو سپریم کورٹ کے علاوہ نیب اور الیکشن کمیشن پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اب وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے اگر اس ’مقصد‘ کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اسے لندن میں بیٹھ کر انتخاب سے پہلے دھاندلی قرار دینا بھی تو زیادتی ہے۔

نیب نواز شریف کو خوش کرنے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتی اور نہ ہی الیکشن کمیشن قومی منصوبہ کی تکمیل میں کردار ادا کرنے سے پیچھے رہ سکتا ہے۔ نیب چن چن کر بدعنوانوں کے گریبان پکڑ رہی ہے۔ اب اگر اس کی زد میں مسلم لیگ (ن) کے ہونہار امیدوار آتے ہیں تو نیب کیا کرسکتی ہے۔ اب تو جو کرنا ہے قانون نے کرنا ہے۔ اور قانون تو سب جانتے ہیں کہ اندھا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر بعض قوم پرست، اسلام کا پرچم اٹھانے والے اور ملک کی حفاظت کے لئے سال ہا سال کی وفاداری تج دینے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ ’شیر‘ کے نشان پر انتخاب نہیں لڑیں گے تو انہیں جیپ کا نشان دے کر الیکشن کمیشن تو صرف اپنا قومی فرض ہی پورا کررہا ہے۔ اس میں الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے کہ یہ نشان پہلے چوہدری نثار علی خان کو الاٹ ہو گیا اور جب زعیم قادری نے شیر کو لات مار کر نیا نشان مانگا تو انہیں بھی جیپ کی سواری نصیب ہوئی۔ اب اگر جیپ کو قومی سلامتی کی علامت سمجھ کر ملک بھر سے امیدوار نواز شریف کو چلاتا چھوڑ کر قومی سلامتی کے نشان کو گلے لگانا چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن بھلا کیا کرے۔

الیکشن کمیشن پر تنقید بے جا اور غیر ضروری ہے البتہ انتخابی بینر پر رشتے داروں کی تصویریں لگانے کا مشورہ دینے والے چیف الیکشن کمشنر سے یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ضرورت مندوں کو جیپ کا نشان تو دے دیا۔ یہ بھی بتا دیں کہ اس جیپ کی سواری جاتی کہاں ہے۔ کیا یہ اسی منزل کی طرف تو گامزن نہیں ہے جہاں جمہوریت ہی نہیں ملک کی تقدیر بھی داؤ پر لگانے کی نوبت آ جائے گی۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن کہیں قومی یک جہتی کی خدمت سرانجام دیتے دیتے قوم کو ٹکڑوں میں بانٹنے اور گلی گلی فساد برپا کروانے کا موجب نہ بن جائے۔ اسی طرح قوم کی تقدیر کے بارے میں متفکر تمام اداروں اور اہم عہدوں پر فائز صاحبان فہم سے دست بستہ عرض ہی کیا جاسکتا ہے کہ جبر، دھونس اور پیٹھ تھپکنے کے ہتھکنڈوں سے قوموں کی تعمیر کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حرکتیں پہلے بھی تباہی کا پیغام لائی تھیں، اب بھی کسی آفت کی صدا ثابت ہوں گی۔ بہتر ہو گا کہ 25 جولائی کو اطمینان اور حوصلہ سے گزرنے دیا جائے۔ بے چارے عوام جو فیصلہ بھی کریں، غلط ہی سہی، اسے اس بار مان ہی لیا جائے۔ اگر قومی اداروں اور بزعم خویش کھیون ہاروں کی درجنوں غلطیوں کے باوجود یہ ملک قائم ہے اور آگے بڑھ رہا ہے تو عوام کے فیصلہ کے نتیجہ میں اس پر کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ البتہ اس عوامی لہر کا خوف ایسے فیصلے ضرور کروانے کا موجب بن رہا ہے جو راہ کھوٹی کرنے کا سبب بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali