صوبہ بہار کی دیدہ دلیر میم صاحبہ اور آسام کا اینگلو انڈین جوڑا


اب میں اپنا سفر مع کریم بخش کے بہار سے براستہ بنگال آسام کو شروع کرتا ہوں۔ ہم ہر دو نے کلکتہ پہنچ کر کمپنی کے دفتر رپورٹ کی جنھوں نے ہمارے سفر آسام کا بندوبست کرنا تھا کیونکہ وہ ٹی اسٹیٹ آسام کے ورکنگ مینیجر تھے۔ اگلے روز ہم نے کمپنی سے پاس وغیرہ لے کر آسام کی راہ لی۔ پہلے EBR کی گاڑی پر سوار ہو کر جو کہ سیالاہ سٹیشن سے روانہ ہوتی تھی رات کو چل کر صبح گوالنڈو سٹیشن پر پہنچے۔ یہاں پر ریلوے لائن ختم ہو جاتی تھی۔ وہاں سے چھوٹے جہاز پر سوار ہو کر، جو کہ برہم پترا دریا میں چلتا ہے، ایک رات اور دن کے سفر کے بعد چاند پور ریلوے سٹیشن، جو آسام ریلوے کا تھا، پہنچے۔ وہاںسے پھر آسام ریلوے کی گاڑی پر بیٹھ کر مقام سلچار سٹیشن پر اتر گئے۔ یہ آسام ریلوے کا آخری سٹیشن تھا۔ سلچار سے موٹر کار میں سوار ہو کر مقام سلکوری، جو کہ سلچار سے تیس میل منی پور روڈ پر تھا، پہنچے۔

یہاں پر ٹی اسٹیٹ کے مینیجر کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہاں پر پہنچ کر ہم نے ریلوے کے مینیجر کے آفس میں کاغذات حوالے کیے۔ ہمارے آنے کی اطلاع بذریعہ تار مینیجر صاحب کو پہنچ چکی تھی۔ اس نے ہم کو ایک مکان رہائش کے لیے دے دیا اور اپنے ہیڈ کلرک کو ہدایت کر دی کہ جس چیز کی ان کو ضرورت ہو وہ مہیا کر دی جائے۔ چونکہ ہم لوگ سفر سے تھکے ہوئے تھے، اپنے مکان میں جا کر ، سامان وغیرہ رکھ کر، اپنے نوکر کو، جو کہ ایک پنجابی لڑکا تھا ،دوکان پر چائے لانے کے لیے بھیجا۔ وہ واپس آ کر کہنے لگا یہاں چائے نہیں ملے گی کیونکہ چائے دوکان پر فروخت نہیں ہوتی۔ تم لوگ بابو ہیڈ کلرک کو کہو وہ چائے بھیج دے گا۔ پس میں نے اسی نوکر کو ایک رقعہ دے کر ہیڈ کلرک کے پاس بھیج دیا جس نے ہم کو ایک بوری چائے کی بھر کر بھیج دی۔ وہاں پر ہزاروں ایکڑ زمین پر چائے اور کارخانہ تھا۔ وہاں پر چائے کی کیا کمی ہو سکتی تھی۔

tea plantation (1907)

ایک روز آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ کام جو تھا وہ اس اسٹیٹ کی حد بندی اور رقبہ زیر کاشت چائے Paddy Field کاتھا اور یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ غیر آباد رقبہ کتنا ہے۔ حد کے ساتھ ساتھ جنگل بہت گھنا تھا جس کا کاٹنا اور چلنا پھرنا بہت مشکل تھا۔ خیر ہم لوگوں نے چالیس مزدور لے کر کام شروع کر دیا۔ روزانہ بہت کم کام ہوتا تھا کیونکہ حد بندی کے پتھر ڈھونڈنے پڑتے تھے جو کہ جنگل میں لگائے گئے تھے۔ اس علاقے میں بارش ہر روز تھوڑی بہت ہو جایا کرتی تھی۔ جنگل اس قدر گھنا تھا کہ سیدھے طور پر چل بھی نہیں سکتے تھے۔ بارش اور نمی کی وجہ سے جونک کے کیڑے درختوں پررینگتے دیکھے گئے جو کہ پانی کا ایک کیڑا ہے۔ اکثر کام کرتے وقت یہ جونکیں ہمارے جسم میں کہیں نہ کہیں چپک جاتیں اور خون چوس لیتیں۔ بعض دفعہ تو بڑی مشکل سے پکڑ کر ان کو الگ کرتے۔ اس لیے کام کرتے وقت بہت احتیاط سے رہنا پڑتا تھا۔

وہاں پر ہم نے چار پانچ ماہ کام کیا لیکن اس عرصے میں ہم تھک گئے۔ علاقہ برساتی ہونے کی وجہ سے واپس وطن آنے کی جدوجہد کرنے لگے۔ ہم نے اپنے کنسلٹنگ انجنیئر صاحب کو خط لکھا کہ اب برسات کا موسم شروع ہو گیا ہے اس لیے ہم لوگ کام میں زیادہ پروگریس نہیں دکھا سکیں گے۔ آپ کا خواہ مخواہ زیادہ خرچ ہو گا اس لیے ہمیں واپس آنے کی اجازت دے دو۔ اس نے ہم کو کرایہ وغیرہ بھیج دیا اور ہم دونوں مع اپنے نوکر کے واپس بہار کو روانہ ہو گئے۔

anglo-indian couple

اب میں یہاں پر اس علاقے اور چائے کی ریاستوں کے کچھ حالات تحریر کرتا ہوں۔ اس اسٹیٹ کا مینیجر، جس کا نام مسٹر مور تھا، یورپین تھا اور اس نے ایک انڈین عورت سے شادی کر رکھی تھی جس کے شکم سے پیدا شدہ بچے بھی تھے۔ اس وجہ سے دیگر یورپین لوگ اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور اس کے گھر پر بہت کم آتے تھے۔

 وہاں پر ڈاک خانہ بھی تھا۔ اس علاقے میں جو لوگ آباد تھے وہ زیادہ تر اسی اسٹیٹ کے مزدور تھے جن کو اسٹیٹ کی طرف سے کام کرنے پر چار آنے یومیہ مزدوری ملتی تھی۔ ان مزدوروں کو کاشت کے لیے تھوڑی تھوڑی زمین بھی ملی ہوئی تھی جس میں وہ لوگ چاول کاشت کر لیا کرتے تھے۔ ان کو اسٹیٹ کے باہر کوئی دوسرا کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مزدوروں کے بچوں کے لیے کوئی سکول وغیرہ نہیں تھا۔ کلرک تمام کے تمام بنگالی بابو ہی تھے۔ علاقہ بہت سستا لیکن صحت کے لحاظ سے اچھا نہیں تھا۔ دن میں بارش ہو جاتی اور پھر ایک دم دھوپ نکل آتی جو کہ ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ وہاں پر بید بہت تھی اور سب سامان، کرسیا ں اور میزوں کے ٹاپ وغیرہ سبھی بید کے ہوتے تھے جو کہ بڑے عمدہ اور مضبوط ہوتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2