برطانیہ جیسا حوصلہ درکار ہے


\"ASIF\"پاکستان میں کوئی بھی اخبار اٹھا لیں، کسی بھی چینل کی نشریات دیکھ لیں، ہر طرف بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں اور خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ وجہ ہے صادق خان کا لندن کا میئر منتخب ہونا۔ بلا وجہ بھنگڑے ڈالنے میں پاکستانی تو ویسے بھی خود کفیل ہیں۔ پہلے اوباما کے امریکی صدر بننے پر لیوا ڈانس ہوا اور اب صادق خان کے لندن کی میئر بننے کی خوشی پر مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں۔ شہ سرخیاں جمائی جا رہی ہے کہ اب ’دنیا پر راج کرنے والے دارالحکومت پر ایک پاکستانی راج کرے گا‘۔ سبحان اللہ۔ اسے کہتے ہیں پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔

پاکستانی جہاں ایسی پرائی خوشیوں پر بھنگڑوں کے دیوانے ہیں وہیں ہر کام میں سازش ڈھونڈنے کے بھی رسیا ہیں۔ شاید ابھی تک کوئی پاکستانی یہ نہیں جانتا کہ صادق خان کے مدمقابل زیک گولڈ اسمتھ تھے جو ارب پتی یہودی ہیں۔ اور اگر پاکستانی یہ جانتے بھی ہیں تو ابھی تک تو کسی مہان تجزیہ نگار نے یہ ہمت نہیں کی کہ وہ یہ اعتراف کر سکے کہ اس بار سازش کی یہ تھیوری ناکام ہو گئی اور ایک یہودی ہار گیا لیکن تسلی رکھئے کوئی نہ کوئی ’بڑے دل والا‘ یہ دور کی کوڑی بھی نکال ہی لائے گا کہ صادق خان خفیہ طور پر یہود و ہنود سے ملے ہوئے ہیں۔ اور کچھ یار لوگ تو ابھی سے یہ ’اطلاع عام‘ دے رہے ہیں کہ صادق خان قادیانی ہیں۔ہمارے ذہن کی عینک کے لئے اتنا دیکھنا ہی کسی کے برا ہونے کیلئے کافی ہے کہ وہ ’قادیانی‘ ہے۔

یہ بے پر کی اطلاعات اپنی جگہ مگر ملا جلد یہ تاویل بھی لائیں گے کہ چونکہ صادق خان ہم جنس پرستوں کے حق میں آواز اٹھا چکے ہیں اس لئے وہ واجب القتل بھی ہیں اور کافر بھی۔ اور ایک امام صاحب تو انہیں مرتد قرار دے بھی چکے ہیں۔ اس سارے قضیے میں دل تھام کر رکھئے کہ صادق خان کی کامیابی کی خوشیاں زیادہ تر پاکستان میں منائی جا سکیں گی۔ یہ بھنگڑے اور رقص بھی پاکستانی میڈیا پر ایک دو روز کے مہمان ہیں اور رونق میلہ دکھا کر اپنی راہ لیں گے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا گرم گرم ایشو کسی نازک اندام حسینہ کی طرح اپنی اداؤں کے جلوے بکھیر رہا ہو گا۔ ہمارے سیاستدانوں کے مبارک بادی پیغامات بھی رونق افروز ہو کر جلد ہی اپنی چمک دمک کھو دیں گے۔

صادق خان کی کامیابی کو کوئی بھی نام دیں مگر عسرت زدہ ماحول میں آنکھ کھولنے والے شخص اور ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کی یہ کہانی ہر ذی شعور کو آگے بڑھنے کی امنگ دیتی ہے۔ یہ داستان بتاتی ہے کہ اگر آپ میں صلاحیت اور لگن ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو منزل تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔ صادق خان یقیناًلائق تحسین شخص ہیں کہ جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے ایسا مقام حاصل کیا جس کی خواہش کوئی بھی شخص کر سکتا ہے ۔مگر اس کے ساتھ آپ کو برطانیہ کے نظام کو بھی داد تحسین دینا ہو گی کہ بدلتی ہوئی دنیا میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ان پر لگنے والے الزامات کے باوجود صادق خان جیسے شخص کو سسٹم سے باہر کرنے کی بجائے اسے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچایا۔

مسلمان ممالک اور خاص طور پر پاکستان میں یورپ کو گالی دینا ایک فیشن ہے۔ یورپ کی برائیوں کو خوب مرچ مسالہ لگا کر ہائی لائٹ کیا جاتا ہے مگر مجال ہے جو ان کی اچھائیوں کو سامنے لانے یا اپنانے کی کوشش کی جائے۔ خصوصاً صادق خان کی کامیابی کو بھی پاکستانی میڈیا صرف ایک ہی اینگل سے سامنے لا رہا ہے، اور وہ زاویہ ہے صادق خان کا مسلمان اور پاکستانی نژاد ہونا۔ کہیں بھی یہ بحث نہیں رہی کہ برطانیہ کا جمہوری نظام کیا خوب سسٹم ہے جو بلا امتیاز اور بلا تفریق رنگ و نسل ہر شخص کو اپنی صلاحیت کے مطابق جگہ دیتا ہے اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کو خاطر میں نہیں لاتا ورنہ لندن کے میئر کے انتخابات کے لئے صادق خان کے خلاف جو گھناؤنی مہم چلائی گئی اور الزامات لگائے گئے، ایسے مواد کا عشر عشیر بھی کسی راست گو اور ایماندار پاکستانی کے خلاف موجود ہوتا تو اس کا جیتنا تو کجا اس کی ضمانت بھی ضبط ہو جاتی اور شاید ان الزامات کی قیمت اسے جان دے کر چکانا پڑتی۔

صادق خان کی جیت پر پاکستانیوں کو اچھل کود کرنے کی بجائے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی جمہوریت صرف باتوں سے نہیں آتی اس کے لئے انگریز جیسی رواداری اور برطانیہ جیسا حوصلہ درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments