پختونوں کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور ریاست کی خاموشی


عوامی نیشنل پارٹی کی شہرت ایک سیکولر سیاسی جماعت کی ہے اور وہ پختونوں کے حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ ہمیشہ مذہبی شدت پسندوں کا ہدف بنی رہتی ہے۔ بعض ریاستی ادارے بھی اس جماعت کو اس وجہ سے پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھتے کہ وہ قومیت کی سیاست کرتی ہے اور پختونوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کی بہ نسبت اسے خصوصی طور پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات میں سوات سے کامیاب ہونے والے اے این پی کے صوبائی اسمبلی کے رکن وقار احمد خان کو بھی اپنے دو بیٹوں سمیت (25 اگست 2008ء) طالبان نے ان کے گھر میں شہید کردیا تھا۔ اس طرح یکم دسمبر 2009ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر شمشیر خان کو بھی عید کے دن سوات میں ان کے گھر پر ایک خود کش حملے میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس حملے متعدد عام لوگوں کے علاوہ ان کے بھائی بھی شہید ہوگئے تھے۔ سوات میں اس وقت طالبانائزیشن عروج پر تھی اور فوج نے سوات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن اس کے باوجود عام و خاص شہریوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا۔

سوات اور قبائلی علاقوں کے علاوہ صوبہ خیبر پختون خوا کے دیگر حصوں میں طالبانائزیشن اور فوجی آپریشنوں کی آڑ میں جس طرح تباہی مچائی گئی ہے، اس نے عام پختونوں خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ریاست اور سکیورٹی اداروں کے بارے میں غیر معمولی بدگمانی کو جنم دیا ہے۔ سوات میں طالبان نے اپنی متشددانہ کارروائیوں میں عام لوگوں کو اتنا زیادہ ہلاک نہیں کیا تھا، جتنے لوگ سکیورٹی اداروں کی بھاری توپ خانے سے اندھی گولہ باری سے ہلاک ہوئے ہیں۔ بعد ازاں آرمی چیک پوسٹوں پر جس طرح لوگوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا رہا، اس نے بھی سوات اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی اداروں کے خلاف شدید ردعمل پیدا کیا تھا اور جس کے نتیجے میں پختون تحفظ موومنٹ وجود میں آگئی۔ اس تنظیم کے جلسوں میں جس طرح سکیورٹی اداروں سے نفرت کا برملا اظہار کیا گیا اور ان پر بعض حساس الزامات لگائے گئے، اس نے امریکہ کے ان الزامات کی توثیق کی جو وہ پاکستان پر افغانستان میں طالبان کو سپورٹ کرنے کی صورت میں لگاتا رہا ہے۔

موجودہ صورت حال میں خیبر پختون خوا میں کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے یا کوئی بڑی سیاسی شخصیت کو ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں پختونوں کی نظریں بعض ریاستی اداروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ شک کرنے لگتے ہیں کہ پختونوں کے اجتماعی قتل عام میں ریاست کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہے۔ اس حقیقت کا اظہار عموماً نجی محفلوں کے علاوہ سوشل میڈیا میں کھلے عام کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا میں جو لوگ اپنی نفرت اور بدگمانی کا اظہار کرتے ہیں، وہ نامعلوم لوگ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق افغانستان یا کسی دوسرے ملک سے ہے۔ ان کے اکاؤنٹس میں باقاعدہ ان کی تصاویر اور پروفائلز موجود ہوتے ہیں۔ ان کھلے حقائق کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست پاکستان کے ذمے داروں کو ان حالات سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی لوگوں کے منفی ردِعمل کے نتیجے میں انھیں غائب کرانے یا دھمکانے کی از کاررفتہ پالیسی پر کاربند رہنا چاہئے۔

اصل میں جو پالیسیاں ضیاء الحق کے دور سے چلی آ رہی ہیں، وہ معمولی رد و بدل کے ساتھ اب بھی پورے زور و شور سے جاری ہیں بلکہ بعض معاملوں میں ان میں شدت بھی آچکی ہے۔ جیسا کہ مین سٹریم میڈیا پر بعض خبریں نشر کرنے پر پابندی عائد کرنا یا بعض کالم نگاروں اور بلاگرز کے قلم پر پہرے بٹھانا۔ یہ سب کچھ اب نہیں چل سکتا۔ تحریر و تقریر پر پابندیاں لگانے کی بجائے اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہئے جن کے نتیجے میں عوام کا ریاست اور ریاستی اداروں پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے اور وہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں۔

موجودہ عام انتخابات میں بھی یہ تصور لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو رہا ہے کہ ان میں فوج مداخلت کر رہی ہے۔ اگرچہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں فوج کا کوئی براہ راست کردار نہیں ہوگا لیکن عملاً ملک کے طول و عرض میں جو حالات نظر آ رہے ہیں، وہ میجر جنرل صاحب کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق معزول وزیر اعظم محمد نواز شریف کو جو سزا سنائی گئی ہے، اسے بھی مخصوص مداخلت کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس تاثر کی وجہ سے پنجاب میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بدگمانی پیدا ہو رہی ہے۔

اس وقت پختون تحفظ موومنٹ کی صورت میں جو تحریک شروع ہوئی ہے، یہ پختونوں کو مسلسل قربانی کا بکرا بنانے اور انھیں دبانے کا ایک معمولی سا ردِعمل ہے۔ اگر پختونوں کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی گئی، انھیں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور انھیں دیگر پاکستانیوں جیسی عزت اور احترام کے قابل نہیں سمجھا گیا تو مستقبل میں اس کا شدید ردِ عمل دوسری نا خوش گوار صورتوں میں بھی نکل سکتا ہے۔ فوج اور دہشت گردی کے مارے عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اب سمیٹنے چاہئیں۔ سکیورٹی اداروں کو عام لوگوں کے درمیان اپنی ساکھ بحال کرنی چاہئے۔ اگر یہ فاصلے بڑھتے گئے تو نہ صرف اس کے نتائج ملک کی سلامتی اور قومی یک جہتی کے لئے تباہ کن ہوں گے بلکہ سکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان اگر اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوگا تو کسی بڑی آزمائش کے وقت عوام ان کی پشت پر کھڑے نہیں ہوں گے۔

اگر ہم نے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہے، اسے تمام قومیتوں کے لئے امن و عافیت کا گہوارہ بنانا ہے تو ہمیں امتیازی پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا۔ قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ وقت بدل چکا ہے، اس لئے حقیقی مقتدر قوتوں کو بھی اس کا ادراک کرنا چاہئے۔ فوج کے ترجمان سوشل میڈیا کے حوالے سے تحفظات کا اظہار تو کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے مقتدرین کو اس میڈیم کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے احساسات اور ترجیحات سے آگاہی حاصل کرنی چاہئے جو تمام ریاستی اداروں پر گہری نظر رکھتی ہے اور ہر ناخوش گوار واقعے پر نہ صرف بنیادی سوالات اٹھاتی ہے بلکہ علاقائی اور قومی اہمیت کے حامل ہر معاملے پر اپنی بے باک رائے کا اظہار بھی کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2