ان سرخوں کا یہی انجام ہونا چاہیئے


کچھ روایات چند لوگوں اور کچھ خاندانوں سے منسوب ہوجاتی ہیں۔ کچھ رتبے کچھ خاص لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ اور ہم ایسے لوگوں کی شہادتوں پر یہ کہہ کر خود کوتسلی دیتے ہیں اور ان کے خاندان کو پرسہ دیتے ہیں کہ آپ کا بیٹا، آپ کافرزند اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا اپنے بزرگوں کی روایات کو نبھاتے ہوئے اس منصب پر فائز ہو گیا ہے جسے شہادت کا منصب کہتے ہیں اور شہیدوں کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہوتے ہیں اور ہمارے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس اذیت اور دکھ کو ہم میں سے کسی نے جھیلا نہیں ہوتا۔ سو ہم کہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہیں ان کو حوصلہ دیتے ہیں۔ کہیں مقامی انتظامیہ کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ دہشت گردوں کو ملعون کہتے ہیں۔ مدرسے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور سیاسی الزام تراشیاں شروع کردیتے ہیں۔

یہ سب کچھ گزشتہ رات سے جاری ہے۔ پشاور میں اے این پی کے امیدوار اوربشیر بلورشہید کے صاحب زادے ہارون بلور سمیت 20 افراد کی خود کش دھماکے میں شہادت کے بعد روایتی بیانات اور مذمتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اصل مسئلہ کیا ہے، اصل حقیقت کیا ہے، جذباتی ماحول میں ان ساری باتوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اور شاید اس لیے نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹانا چاہتے ہیں کہ مرنے والے اور مارنے والے دو مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو مرنے والے ہیں وہ مسلسل مر رہے ہیں اور مرتے رہیں گے کہ وہ پیدا ہی مرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ اور جو مارنے والے ہیں ان کا چونکہ کام ہی مارنا ہے اوروہ اس دنیا میں بھیجے ہی اس لیے گئے ہیں کہ وہ معاشرے میں موت تقسیم کرسکیں، تو ایسے لوگوں کو مارنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

اورجو مرنے والے قبیلے سے ہیں، ان کی انتخابی مہم ایسی ہی ہوتی ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ موت کے دھمال والی، چیخ  و پکار والی، ماتم والی اور نوحے والی۔ ایک ہی نقطہ نظر اس ملک میں ریاست کو مطلوب ہے۔ اور اس نقطہ نظر سے ہٹنے والوں کا انجام موت ہے۔ وہ موت جسے ہم زندگی کہتے ہیں۔ اور دل کی تسلی کے لیے ایسی موت پر فخر بھی کرتے ہیں۔ وہ موت ایسے لوگوں کا مقدر قرار دی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم کچھ اور کر نہیں سکتے اس لیے فخر کرتے ہیں اس موت پر اورکہتے ہیں کہ خدا کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ ان کی لکھی ہی ایسی تھی سو وہ چلے گئے۔ مقدر کا لکھا بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ موت کے کھلاڑیوں کا مقابلہ موت سے نہیں کیا جا سکتا۔

ایک صوبہ ہے جس میں پچھلے الیکشن کے دوران بھی اے این پی، پیپلزپارٹی اور دیگر ترقی پسند جماعتوں پر زندگی تنگ تھی۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بھی یہ سب لوگوں اسی طرح بموں کا اور گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ پانچ برس پہلے بھی ان کی انتخابی ریلیاں جنازے کے جلوسوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ اس مرتبہ بھی ان کے لیے حالات وہی ہیں۔ گزشتہ الیکشن جب موت کے ماحول میں مکمل ہوا تو اس کے بعد ہم نے دہشت گردی سے نجات کے لیے ایک بڑی جنگ لڑی۔ بھرپور طریقے سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ ان کو نیست ونابود کر دیا گیا۔ ان پر زندگی اس طرح تنگ کردی گئی کہ دہشت گردوں کو بھاگنے کے لیے کوئی راستہ ہی نہ ملا۔ ان کی کمر چونکہ ٹوٹ گئی تھی اس لیے وہ دبک کر یہیں بیٹھ گئے۔

گزشتہ پانچ برس کے دوران خیبر پختونخوا میں ایک مثالی حکومت قائم تھی۔ اس حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر یہاں امن بحال کرنے کی کوشش کی۔ رواداری کا ماحول پیدا کیا۔ کرپشن کے خلاف جنگ لڑی۔ صحت اور پانی کے مسائل حل کیے۔ اور بلین ٹری کے ذریعے صوبے کی آب وہوا بہتر بنانے کی بھی کوشش کی۔ اگرچہ عمران خان کے مخالفین ان سارے دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ جیسے پشاور میں میٹرو کا منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا اسی طرح باقی کام بھی زبانی جمع تفریق تک محدود رہے۔ وہ تو کرپشن کے الزاما ت بھی عائد کرتے تھے اور پرویز خٹک کی کرپشن کی داستانیں بھی سناتے تھے۔ لیکن ہم نے مخالفین کی باتوں پر یقین نہیں کیا تھا اور ہماراخیال تھا کہ اب خیبر پختونخوا میں حالات بہت بہتر ہوچکے ہیں اور یہ صوبہ نیا کے پی کے بن چکا ہے۔

ہمیں امید تھی کہ وہاں اس مرتبہ اے این پی اوردیگر ترقی پسند جماعتوں کو انتخابی مہم آزادانہ طورپر چلانے کا موقع ملے گا۔ لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔ کچھ لوگوں اور کچھ جماعتوں کے گرد ہم نے دائرہ لگا رکھا ہے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن پر ہم نے قیام پاکستان کے بعد ہی غداری کا لیبل لگا دیا تھا۔ وہ کتنے ہی محب وطن کیوں نہ ہو جائیں ہم انہیں دشمن کی آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کا انجام یہی ہوتا ہے۔ وہی انجام جو بھٹو خاندان کا ہوا اور جو بلور خاندان کا ہو رہا ہے۔ سرخ پرچم تھام کر امن، رواداری کی بات کرنے والوں کی اس نظریاتی ملک میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گردوں پر زندگیاں بے شک تنگ نہ ہوں۔ لیکن ان سرخوں پر تو جینا حرام ہو جانا چاہیے ان کا یہی انجام ہونا چاہیئے۔ یہ دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک لوگ ہیں۔ اس لیے کہ یہ موت کی نہیں، زندگی کی بات کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).