شہید ساز (جدید)


یہ سب کچھ تھا، لیکن میرے دل کا چین کہاں اڑ گیا، میری تربیت جس انداز میں ہوئی تھی، ویسا کچھ چل ہی نہیں رہا تھا، اب آپ نشانہ باز کو کب تک مچھلی پکڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں، گو کہ الزامات کی بوچھاڑ سے دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا، یا پھر یوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا، پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟

ہم نے گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر لوگوں کے دکھ درد سنے، سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا، وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں، وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں، پیدل چلنے والے، سائیکل، موٹر سائیکل، موٹر کاروں، بسوں، جہازوں پر سفر کرنے والے دکھی ہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہنے والے، اٹالین کھانے والے، سب دکھی، ان کے دکھ کا مداوا کرنا کسی اور کے بس کی بات تھوڑی تھی، ہمیں ہی کچھ کرنا پڑا،کچھ کالے بھنگی نما چاول مچھلی کھانے والوں سے ہم نے خود ہی چھٹکارا حاصل کر لیا۔

تو ہم نے سوچنا شروع کیا، سوچنے کے علاوہ کئی ایک علمائے کرام بشمول فصحا بولنے اور سمجھنے والوں سے راہنمائی لی کہ ہمارے دکھ کا مداوا کیا جائے، اب آپ پوچھیں گے کہ فصحا کیا بلا ہے، فصحا وہ خالص عربی زبان ہے جو ہماری الہٰامی کتاب میں استعمال ہوئی ہے۔ ملکی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی تھی، وسائل اس کے مقابلے میں کچھوے کی چال سے بڑھ رہے تھے، اس آبادی میں اضافے کا تدارک بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لیا، آخر کار ان تمام مسائل کا حل تلاش کر لیا گیا۔

پھر اسے الہام کہہ لیں یا جو مرضی، ایک گائیکہ کچھ گا رہی تھی، باقی تو یاد نہیں، لیکن مصرع ذہن میں اٹک گیا کہ

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے،

میرا مطلب ہے کہ اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سُسری پر۔

ہم نے اپنے کمانداروں کا اجلاس طلب کیا، اور سوچ بچار شروع کی کہ کیوں نہ بیچارے، یہ قسمت کے مارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں، اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ جو وہ یہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے، وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔

اوپر بیان کردہ معرکے میں ہمارے بہت سے پیادے، فیلے اور گھوڑے شہید ہو گئے، لیکن روز روز ایسے معرکے کب ہوتے ہیں، اب شہید کا رتبہ تو آپ کو معلو م ہی ہے۔ خدا کے ہاں شہید کا جو مقام ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں۔

اب معرکہ درپیش یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ ہم نے سوچا کیوں نہیں، وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوق شہادت نہیں، حکیم الامت نے کہا تھا کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی، لیکن مشکل وہیں کی وہیں رہی کہ ان کم علم افراد کو راضی کیسے کیا جائے۔

خدا بھلا کرے سرخ ریاست کا کہ اس نے ہمیں موقع دیا۔

ہم نے اپنے دوستوں کی مدد سے لوگوں کو جہاد پر بھیجنا شروع کر دیا، بچ گئے تو غازی، نہ بچے تو شہید، شہید مرتے کہاں ہیں؟ زندہ رہتے ہیں! اور سچی بات یہ ہے کہ شہادت، شہید کے لفظ سے گھر والوں کو جو سکون، تسکین و تشفی ملتی ہے اس کا اندازہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا، تو ہم نے شہادت کو صنعت کا درجہ دے دیا، داد کے مستحق تو ہیں ناں ہم ؟

اب بھلا جاہل سیاستدان ہماری تزویراتی گہرائی اور عارضی دنیاوی زندگی میں عوام کو سہولتیں پہنچانے والے کیا جانیں کہ شہید کے ساتھ اس کے خاندان کے 7 افراد جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاتے ہیں، شہدا کے بدن سے ایسی مہک آتی ہے کہ عنبر و مشک و کستوری بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ایسے ہزاروں واقعات کتابوں میں درج ہیں کہ کئی کئی برسوں بعد جب شہدا کی قبر کشائی کی گئی تو ان کے کفن پر نشان تک نہ تھا، ان کے چہرے کی طمانیت، مسکان، سکون اس قدر مسحور کن تھا کہ کبھی کبھار ہمارا بھی دل کرتا تھا کہ ہم بھی کاش شہید ہو جائیں، لیکن اگر ہم مر گئے تو لوگوں کو اس قدر اعلٰی مقام پر کون پہنچائے گا، بڑے تو بڑے ہم نے تو بچوں کو بھی کم سنی ہی میں شہادت کے رتبے پر فائز کیا، مزاروں پر جانے والوں کو شہید کروایا، مساجد کے نمازیوں کو بوقت نماز شہید کروایا، اب حالت سجدہ میں شہادت کی موت ہو تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہییے۔

اب تو حالات اس قدر ساز گار ہو گئے ہیں، جنت کی حوروں کے بیانات، فضائل ایسے بیان کیے گئے ہیں کہ ہمیں کوئی خاص مشکل پیش ہی نہیں آتی، ہر کوئی شہید ہونے کو تیار بیٹھا ہے، کیونکہ موت کا ایک دن مقرر ہے تو اسی منطق سے شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے، اب جب جی چاہتا ہے، جہاں جی چاہتے ہیں، ایک اشارہ ہوتا ہے اور ہم لوگوں کو جام شہادت پلا کر ابدی سفر پر روانہ کر دیتے ہیں، جہاں منکر نکیر بھی سوال نہیں کریں گے، پل صراط کی مشقت سے بچ جائیں گے، بروز قیامت سوال و جواب کے بغیر سیدھا جنت میں جائیں گے، دودھ ، شہد کی نہریں، حور، غلمان، ہر قسم کے پھل میوے ان کے ایک اشارے پر، اشارہ تو دور کی بات، شہدا کے سوچتے ہی ان کے سامنے وہ چیز موجود ہو گی۔

خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، مجھے پوری پوری امید ہے کہ جلد ہی سب کے سب شہید ہو جائیں گے، لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے جس کی شہادت اللہ تبارک تعالٰی کو منظور نہیں تھی۔

(سعادت حسن منٹو کا افسانہ “شہید ساز” پڑھنے کے لئے ذیل کے لنک پر کلک کیجئے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3