نواز شریف کو کارگل لڑائی کے بارے میں پہلی بار کب بتایا گیا؟


بریفنگ میں جو سویلین شرکاء موجود تھے ان کا ردعمل منقسم تھا۔ ڈی جی ایم او نے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کہ کیا کارگل کی صورتِ حال، پاکستان کا کیس پروجیکٹ کرنے کے لئے ہماری کوششوں کو کوئی بڑھاوا دے سکتی ہے؟ جنرل صاحب اس بارے میں جاننے کے لئے بے تاب تھے کہ کیا اس ملٹری آپریشن سے سفارتی سطح پر پاکستان کو کچھ فائدہ ہو سکے گا یا نہیں۔

سیکرٹری خارجہ نے کوئی دوٹوک جواب نہ دیا اور کہا کہ شاید اس سے فائدے کا کوئی نہ کوئی امکان نکل ہی آئے۔ لیکن وزیرخارجہ سرتاج عزیز نے دو وجوہات کی بنا پر اس آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک تو یہ کہ یہ آپریشن اس لاہور سمٹ کی روح کے منافی تھا جو اسی سال فروری 1999ء میں منعقد ہوئی تھی اور دوسرے یہ کہ امریکہ اس کو سپورٹ نہیں کرے گا۔

سرتاج عزیز نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم سے یہ بھی پوچھا کہ کیا یہ پلان جو آرمی نے بنایا ہے وہ اعلانِ لاہور کے معاہدے کے برعکس نہیں؟ وزیراعظم جو بڑے سکون سے بیٹھے تھے انہوں نے جواب دیا: ’’سرتاج عزیز صاحب! کیا ہم کاغذی خط و کتابت کے ذریعے کبھی کشمیر حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہ موقع مل رہا ہے کہ اس پلان کے ذریعے کشمیر لے سکیں!‘‘ لیکن اس کے بعد بھی وزیرخارجہ مضطرب ہی رہے۔ ان پر عیاں تھا کہ یہ آپریشن پاکستان کو حصولِ کشمیر کے لئے کوئی بین الاقوامی سپورٹ فراہم نہیں کرے گا۔

اس کمرے میں بیٹھا ایک اور شخص بھی پریشان تھا۔ وہ نوازشریف کا وزیرِامورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات، مجید ملک تھا۔ ایک ریٹائرڈ جنرل ہونے کے ناتے انہوں نے کمانڈر 10کور پر سوالوں کی بوچھاڑ کرکے انہیں خوب رگیدا۔ ان کو اگلے مورچوں پر بیٹھے ٹروپس کی انصرامی مشکلات (Logistics) کا خوب احساس تھا۔ انہوں نے سوال کیا: ’’خراب موسمی حالات اور دشمن کے حریفانہ ماحول میں ٹروپس کو رسد کیسے پہنچائی جائیں گی؟‘‘۔ ان کو اس علاقے کی وہ خطرناک اور مشکل ٹیرین یاد آئی جو انہوں نے ذاتی طور پر دیکھی ہوئی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل محمود نے ان کو روکھا سا جواب دیا اور کہا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے اور ’’ہمارے ٹروپس کو مکمل اور ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہے‘‘۔ ریٹائرڈ جنرل مجید ملک نے ڈی جی ایم او سے یہ بھی پوچھا: ’’اگر بھارتیوں نے اپنی فوج وادی سے باہر نہ نکالی اور اپنی فضائیہ کو بھی اس تنازع میں جھونک دیا تو کیا ہو گا؟‘‘ دریں اثناء اس کمرے میں ایک اور شخص جواب تک خاموش بیٹھا تھا وہ سیکرٹری دفاع تھا۔ وہ بھی ریٹائرڈ جنرل تھے اور نوازشریف کی کابینہ میں شامل تھے۔ انہوں نے بھی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ وہ کوئی سوال نہیں پوچھیں گے۔ لیکن جب یہ رسمی اجلاس ختم ہوا تو انہوں نے ایک اور ملٹری آفیسر کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: ’’فارن آفس اس مسئلے کو کبھی بھی ہینڈل نہیں کر سکے گا‘‘۔

وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے وزراء سے صرف ان کی رائے پوچھی تھی۔ انہوں نے خود بھی کوئی ایسا سخت (Tough) سوال نہ پوچھا۔ ان کو اس بریفنگ میں جو کچھ بتایا گیا اور جو ان کی سمجھ میں آیا اسی کی بنیاد پر اور نیز ان کے وزراء نے جو سوال اٹھائے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے منتخب وزیراعظم نے تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس پلان کو قبول کر لیا جو فوج نے ان کو پیش کیا تھا۔ وزیراعظم چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح کشمیرکے مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے۔

ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کو اس امر کا یقین ہو گیا تھا کہ آپریشن کوہ پیما،مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ایک مثبت قدم ہو گا۔ وہ شائد ڈی جی ایم او کی بریفنگ کے رجائی اندازِ تکلّم سے بھی متاثر تھے کہ ’’فتح ہر حال میں ہماری ہوگی‘‘۔

اور دوسرے ان کو کچھ کچھ یہ یقین بھی تھا کہ وہ ایک ایسی ہستی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے ’’جس کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ انہوں نے کشمیر کو لیلائے حریت سے ہمکنار کیا تھا‘‘۔۔۔۔ وزیراعظم نے سی جی ایس کے اس فقرے کو بطور خاص پسند کیا تھا کہ : ’’قائدِاعظم کے بعد آپ کو یہ سنہری موقع ہاتھ آ رہا ہے کہ آپ تاریخ میں بطور فاتح کشمیر یاد رکھے جائیں گے!‘‘

خوشامد کی کثرت تھی۔۔۔ چیف آف جنرل سٹاف نے فرمایا: ’’سر! آپ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے وزیراعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے، جن کے دور میں مسئلہ کشمیر حل ہوا۔‘‘۔۔۔ یہ سن کر نوازشریف نے جواب دیا: ’’آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ سری نگر پر پاکستانی پرچم کب لہرایا جائے گا؟‘‘ سویلین شرکائے کانفرنس نے اس وقت یہی سمجھا کہ یہ تبصرہ وزیراعظم نے صرف ازراہِ مذاق کیا ہے! لیکن ایک تو ان خوشامدی کلمات نے اور دوسرے آرمی چیف کے اس بیان نے کہ ’’میں اپنی تمام عسکری زندگی کے تجربات کے پیش نظراس بات کی ضمانت دے رہا ہوں کہ یہ آپریشن ضرور کامیاب ہو گا‘‘، اس آپریشن کوہ پیما کے لئے وزیراعظم کی تائید حاصل کر لی۔

پرائم منسٹر نے اس تبصرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا جو ان کے وزیرخارجہ اور وزیرِ امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات نے کیا تھا۔ ان کو ایک تو اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ اس آپریشن میں کسی قسم کی پسپائی کا کوئی امکان نہیں اور دوسرے انہوں نے اپنے ملٹری کمانڈروں کی باتوں پر یقین کر لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اس ملاقات میں وزیراعظم اور ان کے ملٹری کمانڈروں کے مابین کوئی ایسی گفتگو نہیں ہوئی تھی کہ جس سے اس بات کا اشارہ ملتا کہ نوازشریف کو اس آپریشن کی قبل ازیں کوئی خبر تھی۔ البتہ ڈی جی ایم او نے اپنی بریفنگ کے آغاز پر جو یہ کہا تھا کہ :’’آپ کی خواہش کے مطابق مارچ 1999ء میں آئی ایس آئی کی طرف سے منعقدہ اجلاس میں جو آپ نے یہ کہا تھا کہ تحریکِ آزادی کشمیر کو اپ گریڈ کر دیا جائے‘‘ تو یہ پلان آپ کی اسی خواہش کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔

(محترمہ نسیم زہرا کی کتاب “کارگل سے فوجی بغاوت تک” حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ یہاں اس کتاب کے کچھ اہم اقتباسات دیے گئے ہیں۔ اردو ترجمے کے لئے “ہم سب” لیفٹنیٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان کا شکرگزار ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3