سندھ دھرتی سے بچھڑے سندھیوں کی کہانیاں


گووند نھالانی کو ابھی تک یاد ہے کہ کراچی میں ان کی چار منزلہ عمارت تھی۔ عمارت کے سامنے بادام کا درخت تھا۔ وہ بھی اور بچوں کے ساتھ انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے تو سائیڈ کی بلڈنگ سے بر ٹش فوجی ان کی طرف ٹافیاں پھینکتے تھے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنی سبھیتا کو قائم رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر سریش ایڈوانی کوئنس ہسپتال آتے جاتے سندھی گانے سنتے ہیں۔ کہتے ہیں کون کہتا ہے کہ ہندوستان سے سندھی زبان ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر رام بخشانی دبئی کی ترقی میں اپنا مثالی حصہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سندھ سے نکل کے بہت سے پلیٹ فارموں کے دھکے کھانا پڑے۔ شرناز تھی کیمپوں سے ہوتے بڑو دہ پہنچے تھے اپنے گھر سے بے گھر ہونا بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔ ان کی دادی مرتے دم تک ضد کرتی رہیں کہ واپس سندھ چلو وہ سندھی سبھیتا کی مثال تھیں۔ خود کھانا کھانے سے پہلے کوؤ ں کو کھلاتی تھیں۔
ہرے ہری لیلا کی زندگی بھی عروج و زوال کی کہانی رکھتی ہے شروع میں ہانگ کانگ میں اخباریں بھی بیچنی پڑیں پر اب وہ بڑانام ہے۔ سندھی زبان کی اہمیت ہی ہے کہ ان کی بہوبھی سندھی بولتی ہیں۔

ڈاکٹر ستیش روہڑا ہندی اور سندھی کے ماہرہیں۔ ہندوستان کی 16بولیوں والی ڈکشنری میں سندھی زبان کو انہوں نے ہی ترتیب دیا ہے۔ خود سندھیالوجی سنبھالتے ہیں اور وہاں سندھی میں تعلیم دیتے ہیں۔

مورج منگھانی ایک بزنس مین ہیں ان کو بہت پریشانی ہے کہ ہمارے بچے اگر سندھی لکھ پڑھ نہیں سکیں گے تو بولی صرف بولی بولنے تک ہی محدود ہوجائے گی۔
مرلی چن رائے کہتے ہیں کہ ہم سنگاپور میں ضرور رہتے ہیں پر اپنی تہذیب سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے چھوٹے ہمیشہ اپنے بڑوں کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر ملتے ہیں۔
سندھ میں جھٹمل وادھوانی ہمیوں کالانی کا کلاس فیلو تھا اور ایک سال بڑا تھا انہوں نے سندھی کتابوں کی لائبریری قائم کی۔ سندھی بھون قائم کرنے کے لئے ہندوستان سرکار سے 60ہزار اسکوائر فٹ زمین بھی حاصل کی ان کا پیغام ہے کہ ہندوستان میں ہر سندھی اپنے بچوں کو سندھی سکھائے۔

ارجن ہنگورائی بتاتے ہیں کلیاں کیمپ میں ان لوگوں نے کس قدر براوقت گذارا تھا۔ ایک دفعہ اداکار اشوک کمار نے ان کو اپنی کار میں بٹھایا تھا اس زمانے میں دلیپ کمار کے پاس بھی کار نہیں تھی۔ وہ کامنی کوشل کے ساتھ فرسٹ کلاس ٹرین کے ڈبے میں سفر کرتے تھے دیو آنند اور گرودت جیسے سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے تھے۔

لکشمن داس چیتنانی چیف کمشنر آف انکم ٹیکس نے اس بات پر زور دیا کہ سندھی برادری اپنے بچوں ک شادیاں سندھی میں ہی کرے۔
شیام روپ چند انڈونیشیا میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ میں مٹیاری شہر کے نزدیک ایک قصبے کھنڈو سے ہے۔ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے دادا سندھ کے آم کے باغوں کو بہت یاد کرتے رہتے تھے۔ یہ سندھی سملین بھی کراتے رہتے ہیں خاص طور پر چیتی چند پر سب سندھی آپس میں ملتے ہیں۔

اشوک کھیمانی یہ لوگ سندھ کے بڑے زمیندار تھے پر سندھ سے خالی ہاتھ ہی گئے تھے۔ اب اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے کہ بوڑھے لوگوں بچوں کے سنبھال کے لئے سینٹر قائم کیئے ہیں۔ اور ریڈ کراس چلار ہے ہیں ان کے خیال میں سندھی کے لئے دیونا گری لپی ہی صحیح ہے۔ شکایت کرتے ہیں کہ ہم سندھیوں میں اتحاد بلکل نہیں ہے۔
ڈاکٹر دیا آشامشہور ادیب اور شاعر ہیں۔ یہ سندھی کے پہلے ڈاکٹر آف لٹریچر ہیں ان کے خیال میں بھی وقت کی نذاکت کو دیکھتے ہوئے سندھی بولی کے لئے دیوناگری لپی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ الھاس نگر کو بھی سندھو تو کبھی چھوٹی سندھ کہتے ہیں۔

چندرو پنجابی پریزیڈنٹ آف انٹر نیشنل سندھی پنچائت ہیں۔ چندروان کا نام اور پنجابی ذات ہے۔ وہ سندھ اور سندھی سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ سندھ میں بہت بڑے زمیندار تھے۔ بٹوارے کے بعد چندروپنجابی نے ایک شرنار تھی کیمپ میں جنم لیا تھا۔ بتاتے ہیں کہ ٹوٹی پھوٹی کیمپوں میں رہتے ہوئے بھی ان کی دادی پیسے بچا کر ان کو اچھے کپڑے پہناتی تھیں۔

پریم لالوانی چیئرمین سندھی الائنس آف امریکا کہتے ہیں کہ جب ہم سندھ میں تھے تو سندھ ہماری دنیا تھی اب عالمی سطح پر آگئے ہیں اب پوری دنیا ہماری سندھ ہے۔ امریکا میں سندھیوں کے میلے کرواکے ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سندھی چا ہے ہندو ہو یا مسلمان آپس میں محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔

چندرو ایل رھیجا کے بڑے سندھ میں کراچی میں چینی کا بڑا کاروبار کرتے تھے۔ ہندوستان میں آکر نئے سرے سے شروعات کی اور اپنی محنت سے کامیاب ہوئے۔ ان کے چھوٹے بچے سندھی سیکھ ر ہے ہیں۔

ڈاکٹر کرتارلالوانی کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی کمپنی نے انگلینڈ میں بھی نام پیدا کیا ہے اور کوئین ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ بتاتے ہیں کہ لیڈی ڈائنا کے بھائی ان کے بہت اچھے دوست ہیں۔
ڈاکٹر اندرا ہندوجا کلیاں کیمپ میں رہتے ہوئے بھی میونسپل اسکول میں پڑھ کے میڈیکل کے عروج پہ پہنچی ہیں۔ انہوں نے سندھی کا ترجمہ کیا ہوا ادب پڑھا ہے۔
پھلاج نھالانی کو بہت احساس ہے کہ سندھیوں کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ پچاس لاکھ پورے ہندوستان میں پھیلے ہونے سے ووٹ بینک کا بھی فائدہ نہیں ہے۔ ان کے خیال میں سندھی لوگوں نے یتیم بچوں بوڑھوں کے لئے آشرم بناکے وفاکی ہے اس مٹی سے جہاں رہتے ہیں۔

سوبھوگیان چندانی یہ سندھ کا بیٹا مرتے دم تک سندھ میں ہی رہا۔ ان کا گاؤں موھن جو دڑو کے سامنے گاؤں بنڈی میں پیدا ہوئے تھے وہ بتاتھے کہ بچپن میں جب برسات ہوتی موھن جو دڑو سے سکے نکل آتے یا زیور مٹی کے برتن کے ٹکڑے ملتے وہ چاہتے تھے سندھ اور ہند کا رشتہ ہمیشہ قائم ر ہے۔

دلیپ لکھی و شن داس کے بڑے شکار پور کے تھے۔ ان کے خیال میں سندھی ہمیشہ ہی دوسروں کے کام آتے ہیں۔
بھگوان گدوانی یہ بڑے کھوجناتک اتھاس نویس کہتے ہیں ہند کو سندھ سے نام ملا ہے۔ یہ کہتے ہیں ہم نے سوچا نہیں تھا کہ پلک جھپکنے میں ہی سندھ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
لاڑکانہ کے سریش کیسوانی کا خیال ہے بولی میں ہمیشہ وہی لپی اپنانی چاہیے۔ جس میں بچے آسانی محسوس کریں۔ نارائن شیام کے خیال کو یہ بلکل نہیں مانتے کہتے ہیں پوری دنیا میں سندھی بستے ہیں سندھ میں تو کروڑوں کی تعداد میں سندھی ہیں سندھی بولی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ہیں۔

اس طرح سندھ سے جانے والے سندھ کو یاد کرکے تڑپتے ر ہے اب یہ محبت انہوں نے اپنے بچوں میں انجیکٹ کردی تھی۔ بڑے مل بیٹھتے ہیں اور سندھ کو یاد کرتے ہیں یہ باتیں ان بچوں میں منتقل ہوجاتی ہیں جنہوں نے اپنے وطن کا ہجر نہیں سہا پر بڑوں کے ذریعے محسوس کیا ہے۔
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب بات میں تیری بات نہیں۔ بڑوں کی ہربات کا تعلق ناتاسندھ سے جاکے جڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2