نواز شریف پر جہاز میں کیا گزری؟


دو تین خواتین صحافیوں نے ان کے تفصیلی انٹرویو ریکارڈکیے۔ کوئی گھنٹہ بھر بات چیت کے بعد اپنی سیٹ پر واپس چلے گئے۔ اب تک بیرونی میڈیا کے کچھ صحافی دھکم پیل اور لپک جھپک سے ہٹ کر اس انتظار میں تھے کہ انہیں بات چیت کا موقع ملے۔ توجہ دلانے پر میاں صاحب نے اکانومسٹ، رائٹر اور بی بی سی کے تین نمائندوں کوالگ الگ انٹرویوز ریکارڈ کرائے۔ اب تک کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی تھی۔ نہ کوئی پراسرار لوگ نظر آئے۔ پی ٹی آئی کے جتھے بھی محض افواہ نکلے۔ لاہور کوئی آدھ پون گھنٹے کے فاصلے پر رہ گیا تھا کہ پاکستان بھر کے تقریباً تمام چینلز کے رپورٹرز نے ایک دفعہ پھر مورچہ سنبھالا اور سوالات شروع ہوگئے۔

میاں صاحب نے ایک بات تواتر سے کہی کہ میڈیا تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک چوتھائی میڈیا بھی خوف سے نکل آئے اور جبر کے سامنے جھکانے سے انکار کردے تو حقیقی جمہوریت کی منزل بہت قریب آجائے گی۔ اپنے پروگرام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے مطابق خود کو گرفتاری کے لئے پیش کرنے آرہا ہوں۔ مریم بھی میرے ساتھ ہے۔ صفدر پہلے ہی جیل جاچکا ہے۔ ہم ائرپورٹ سے باہر جاکر اپنے لوگوں سے بات کریں گے۔ میں اپنی والدہ اورمریم اپنی دادی کو سلام پیش کرے گی۔ اس کے بعد ہم کل کی صبح طلوع ہونے سے پہلے پہلے نیب لاہور کے دفتر پیش ہوجائیں گے۔ اس لئے کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے نہ کوئی غیر مہذب حرکت کرنی چاہیے۔

طیارہ اپنی متعین جگہ اور ٹیوبز سے بہت دور ایک کھلی جگہ رکا۔ ایک صحافی خاتون نے شیشے سے جھانک کر دیکھا اور بولی: ”ہر طرف رینجرز ہی رینجرز ہیں۔ دور دور تک پھیلے ہوئے“۔ رینجرز، اے ایس ایف یا ایلیٹ فورس کی وردیوں میں تمیز کرنا میرے لئے ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ میں نے باہر جھانک کر دیکھا، وہ پرے باندھے کھڑے تھے۔ ان میں خواتین کے دستے بھی تھے۔ طیارہ کھڑا تھا اور اندر غیر یقینی صورت حال کا تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔ صحافی متحرک تھے اور ان کے کیمرے مسلسل آنکھیں جھپک رہے تھے۔

لندن اور ابوظہبی سے طیارے پر سوار ہونے والے مسلم لیگی کارکن میاں صاحب اور مریم کی نشستوں کے گرد کھڑے ہوگئے۔ کسی ایک نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگایا۔ اس کا بھرپور جواب آیا۔ میاں صاحب بولے: ”نہیں نہیں، اس طرح نہ کریں“۔ دروازے کھل گئے تھے۔ سیڑھیاں لگ چکی تھیں لیکن کسی مسافر کو نیچے اترنے کی اجازت نہ دی گئی۔ دونوں طرف سیڑھیوں پر باوردی افراد نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ کوئی پندرہ منٹ بعد با وردی مرد اور خواتین پچھلی سیڑھی سے اندر داخل ہوئے تمام رپورٹرز کی لائیو کمنٹری شروع ہو گئی ہر ایک اپنی نگاہ اپنے مشاہدے، اپنے ذوق اور اپنے چینل کے تقاضوں کے مطابق بولے جا رہا تھا اور کسی کو کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

ایک سینئر افسر اور دو تین بارودی خواتین نشست کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔ کسی نے میاں صاحب یا مریم کو نہیں چھوا، کارکن نعرہ زن ہوئے لیکن میاں صاحب نے ایک بار پھر منع کرا دیا۔ انہوں نے نرم لہجے میں کہا کہ میں گرفتاری دینے آیا ہوں۔ آپ نے یہ حالت جنگ کیوں بنا دی ہے۔ میں اپنے عوام سے ملکر اور اپنی والدہ کی دعائیں لے کر پیش ہو جاؤں گا۔ آپ کو کسی طرح کی زحمت کی ضرورت نہیں۔ اس دوران امریکہ میں مقیم ایک مسلم لیگی کارکن عبدالخالق اعوان نے بلند آواز میں انگریزی میں تقریر شروع کر دی۔ پورا کیبن اس تقریر سے گونجنے لگا وہ بولے جا رہا تھا۔

”میں اعوان ہوں۔ میں پاکستانی ہوں کیوں مذاق بنا دیا ہے میرے ملک کو، کیوں اس طرح کی حرکتیں کرکے ساری دنیا میں بدنام کر رہے ہو۔ سٹاپ اٹ پلیز، سٹاپ اٹ پلیز۔ کیا کیا ہے اس شخص نے یہی ناکہ وہ اس ملک کو بنا رہا تھا۔ اور اگر اسے سزا ہوئی ہے تو وہ آ گیا ہے نا۔ گرفتاری دینے ہی آیا ہے۔ عزت کرو اس کی۔ وہ بولے جا رہا تھا۔ انگریزی پیہم برس رہی تھی۔ میرے پہلو سے لگا ایک افسر بت کی طرح کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔ وہ ایک لفظ بھی نہ بولا۔

صورتحال تلخ ہونے لگی تو میاں صاحب اٹھے۔ مریم بھی اٹھ کر کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی خدمت گار عابداللہ سے کہا میرے ساتھ رہنا۔ پھر وہ اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان سے کہنے لگے۔
”دواؤں والا بیگ ساتھ ہی رکھنا“ ان کے ساتھ درجنوں با وردی اہلکار اور بیس سے زائد مسلم لیگی کارکن بھی اس انبوہ کا حصہ بن گئے۔ نعرے پھر شروع ہو گئے۔ یہ بھیڑ عقبی سیڑھی کی طرف بڑھی جن میں دم خم تھا وہ دھکم پیل کرتے اس ریلے میں شامل ہو گیا۔ خواتین بچے اور مسافروں کی ایک بڑی تعداد اندر رہ گئی۔ نیچے پرانے ماڈل کی دوسادہ سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ کوئی دو سو میٹر پرے ایک ہیلی کاپٹر اپنے بڑے بڑے پر، بازؤں کی طرح پھیلائے کھڑا تھا ایک طرف ایک چھوٹا طیارہ نظر آ رہا تھا۔

میں اپنا دستی بیگ تھامے طیارے کے دروازے تک پہلے زینے تک آیا لیکن نیچے نہ اتر سکا میرے آگے کوئی پچاس لوگ جن میں خواتین بھی تھیں، چھوٹے بچے بھی، بزرگ بھی سیڑھیوں پر پھنسے کھڑے تھے۔ نیچے بیسیوں اہلکاروں نے راستہ روک رکھا تھا۔ عقبی سیڑھی کا بھی یہی عالم تھا بچے رو رہے تھے خواتین کوس رہی تھیں کئی صحافی چیخ رہے تھے کہ انہیں اپنے فرائض کے لئے نیچے جانے دیا جائے لیکن کوئی کسی کو سننے والا نہ تھا۔ میاں نواز شریف، مریم، مسلم لیگی کارکن اور با وردی اہلکاروں کا مجمع خاصا بڑا لگ رہا تھا۔ وہاں سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کیا بات ہو رہی ہے۔ کوئی نصف گھنٹے بعد یہ غول طیارے کے قریب پہنچا اور بھیڑ چھٹنے لگی۔ غالباً میاں صاحب اور مریم کو طیارے میں بٹھا دیا گیا تھا اس کے بعد پون گھنٹہ سیڑھیوں کی ناکہ بندی جاری رہی۔ یہاں تک خواتین دہائی دینے لگیں۔

ساڑھے آٹھ بجے طیارے نے لینڈنگ کی تھی۔ اب ساڑھے دس بجے رہے تھے اور ہم سیڑھیاں نہیں اتر پا رہے تھے۔ مجرم اور مجرمہ کا طیارہ رن وے پہ روانہ ہوا تو سیڑھیوں کے ناکے ٹوٹے، نیچے صحافیوں کا ایک انبوہ تھا اور ان کے تبصرے۔ میری نظر عابداللہ پر پڑی میں نے پوچھا تم گئے نہیں۔ وہ بولا ”سر مجھے طیارے تک لے گئے میاں صاحب کے کہنے پر پھر دھکا دے کر پیچھے دھکیل دیا۔ اتنی دیر میں سہما ہوا ڈاکٹر عدنان میرے قریب آیا اس کی آنکھیں جھلک رہی تھیں۔ دواؤں کا بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ بولا ”سر میاںصاحب کہتے رہے، میں چیختا رہا لیکن انہیں یہ بیگ ساتھ نہ لے جانے دیا گیا۔ اب پتہ نہیں کیا ہوگا وہ دل کے مریض ہیں پتہ نہیں کس وقت کس دوا کی ضرورت پڑ جائے۔

میں باہر آیا تو دور دور تک سناٹا تھا۔ نہ کار نہ رکشا، نہ ٹیکسی، دیر تک میں اپنا بیگ تھامے کھڑا رہا۔ ایک صاحب میرے پاس آئے مجھے اپنی گاڑی پہ بٹھایا اور میری منزل پر چھوڑا آئے راستے بھر میں بہت کچھ سنتا رہا لیکن بول نہ سکا میرے حافظے کی لوح پر گیارہ پرس پہلے کا منظر بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح گھوم رہا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ نواز شریف تو مجرم ہے، اس کی بیٹی بھی عدالت سے مجرمہ قرار پا چکی ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستانی مجرموں سے پاک ہو رہا ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ مجھے اس خیال سے کچھ تسلی ہوئی ایک مدت سے معمول رہا کہ میاں صاحب کے خصوصی فون نمبر پر بات ہو جاتی کوئی وٹس اپ ٹیکسٹ کرتا تو جلد جواب آ جاتا۔ آج صبح میں نے دیکھا کہ وٹس ایپ پر ان کا نمبر نہیں آ رہا۔ کچھ دنوں سے ایک اور فون نمبر بھی ان کے زیر استعمال تھا۔ اس پر بھی ٹیکسٹس کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ میں نے بیدار ہوتے ہی انہیں لکھا۔ ”السلام علیکم“ یہ سطور لکھتے وقت کوئی اٹھارہ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ بشکریہ نوائے وقت۔

نواز شریف پر ابوظہبی میں کیا گزری؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2