میڈیا آزاد ۔۔۔ غیر ملکی صحافی اقدام قتل میں پکڑا گیا


گزشتہ تین روز سے نارویجئن میڈیا اپنےایک اسٹار جرنلسٹ کی پاکستان میں گرفتاری کا راگ الاپ رہا ہے اور پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بے معنی اور نت نئے سوال اٹھا رہا ہے۔ ایک چھوٹے ملک کے ’سادہ لوح‘ صحافیوں کو شاید علم نہیں ہو سکا کہ اس وقت وطن عزیز میں کسی سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں ہے جو اپنی شہرت اور فائیدے کے لئے ملک کے مفادات کا سودا کرلینے کی خواہش رکھتی ہو۔ اس وقت تو غیر جانبدار نگران حکومتوں کا دور دورہ ہے۔ مرکز میں اس کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں اور ان کا ہر قدم نپا تلا، قومی مفاد کے عین مطابق اور قانون کا ہر تقاضہ پورا کرتے ہوئے اٹھتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ تو ایک درویش منش پروفیسر اور دانشور ہے جو قانون کو ہاتھ میں لینے یا شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شر پسند، صحافی یا سیاست دان ہونے کا ڈھونگ کرکے قانون شکنی کرے، پولیس پر حملہ کرے، سیکورٹی اداروں کو للکارے تو قانون تو اپنا راستہ بنائے گا۔ پھر پولیس جانے اور وہ قانون شکن۔ اس بیچ سرکار اور اس کے نگران کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ تو ان کی شرافت اور قانون نے باندھ رکھے ہیں۔

ایسا ہی ایک عجوبہ روزگار واقعہ جمعہ کو گجرات میں ہو گیا۔ ناروے کے سب سے بڑے کمرشل ٹی وی چینل ٹی وی ۔2 کا تجربہ کار اور سینئر رپورٹر جو پاکستانی ماں باپ کے گھر پیدا ہؤا لیکن ناروے میں پروان چڑھا اور بطور صحافی گزشتہ 20برس میں اس نے اپنی پروفیشنل کارکردگی ، مہارت اور فیلڈ رپورٹنگ سے ناروے کے سامعین و قارئین سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، گجرات پولیس پر ’حملہ ‘ کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ قذافی زمان ناروے سے چھٹیاں منانے اپنے آبائی گاؤں گئے ہوئے تھے۔ لیکن صحافی تو ہر وقت صحافی ہوتا ہے ۔ وہ چھٹی پر ہو یا نیند میں خبر کی تلاش اس کی سرشت کا حصہ بن جاتی ہے۔ نواز شریف کی پاکستان آمد کے موقع پر قذافی زمان کے ایڈیٹر نے پوچھا کہ کیا وہ اس موقع پر سیاسی صورت حال ،احتجاج اور پاکستان میں متوقع انتخابات کے بارے میں رپورٹ ارسال کر سکتا ہے۔ قذافی نے فوراً آمادگی ظاہر کردی ۔ وہ گھر سے باہر نکلے تو نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی کے سلسلہ میں احتجاج کرنے والوں کی ایک ریلی پر پولیس تشدد کررہی تھی۔ قذافی نے اس کی تصویریں لیں اور اپنے چینل کو لائیو آڈیو رپورٹ دینے کی کوشش کی کہ پولیس کی چوکس آنکھیں اس پر پڑیں۔ وہ شخص چال ڈھال اور شکل صورت اور لباس سے پاکستانی دکھتا تھا اس لئے پولیس کے ’فرائض منصبی‘ کی ادائیگی کے دوران آنکھوں دیکھا حال بتانے کی کوشش کرنے والے اس شخص کو روکنا ضروری تھا۔ اسے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان کی پولیس کس قدر فرض شناس ہے۔ اور خود سے بھی زیادہ عوام دوست اور فرض کی پکار پر لبیک کہنے والی نگران حکومت اور اس کے قانون پسند وزیر اعلیٰ کے حکم کی پابند ہے ۔ اس لئے پولیس نے فوری طور سے قذافی کو اپنی ’شر پسندانہ‘ حرکات بند کرنے کا حکم دیا۔ لیکن قذافی ناروے کا پلا بڑھا تھا، پاکستانی پولیس کی زبان ، اشاروں کے علاوہ ان کے اختیار سے قطعی بے خبر تھا۔ اسے گمان تھا کہ جس طرح ناروے میں رپورٹنگ کے دوران کوئی پولیس والا کسی صحافی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا بالکل اسی طرح جیسے کوئی صحافی رپورٹنگ کرتے ہوئے کسی پولیس والے یا سیاست دان پر اپنے صحافی ہونے کا رعب نہیں جھاڑتا۔ یہ سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اسی بری عادت کی وجہ سے اس نے پولیس افسر سے کہا کہ ’میاں آپ اپناکام کرو اور مجھے میرا کام کرنے دو‘۔ اس درخواست کی پاداش میں قذافی تین روز سے گجرات پولیس اسٹیشن کی حوالات میں بند ہے اور نارویجئن میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں نارویجئن اور اوسلو میں پاکستانی سفارت خانہ اس معاملہ کی تہ تک پہنچنے اور قذافی کی جلد از جلد رہائی کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہا ہے۔ اس دوران اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ قذافی زمان کے خلاف دیگر 38 لوگوں کی طرح پولیس پر حملہ اور اقدام قتل کے علاوہ متعدد متفرق دفعات میں ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ اب باقی لوگوں کی طرح قذافی کی قسمت کا فیصلہ کوئی مجسٹریٹ ہی کرسکتا ہے جو فرد جرم دیکھ کر ضمانت لینے یا انکار کرنے کا فیصلہ کرے گا۔

اس دوران ناروے کے صحافی اور سیاسی نمائندے اس بات پر حیران و پریشان ہیں کہ ایک صحافی کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران گرفتار کرکے حولات میں بند کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ایک صحافی یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا پاکستان میں پولیس صحافیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔ اب اس معصوم سوال کے جواب میں کیسے بتایا جائے کہ ہمارے ملک کی پولیس اس وقت بادشاہ ہوتی ہے جب ’اوپر ‘ سے فرض پورا کرنے کا اشارہ ہوجائے۔ اسی اشارے پر عمل کرتے ہوئے جمعہ کو لاہور اور دیگر شہروں میں پولیس اور سیکورٹی فورسز نے من مانی کی۔ اور لمحہ لمحہ دی جانے والی رپورٹوں میں ’سب اچھا ہے‘ درج کیا۔ ظاہر ہے جب صحافیوں کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا حق دینے کی بجائے انہیں رپورٹنگ سے روکنے کی ہدایت ہو تو پولیس کے پاس تو بات نہ ماننے والوں کے لئے حوالات کا آپشن ہی بچتا ہے۔ قذافی اگر شکل صورت سے گورا ہوتا تو گجرات پولیس کو شاید اندیشہ ہوتا کہ بات حد سے بڑھ بھی سکتی ہے لیکن اس نے ’پاکستانی‘ ہوکر بھی پاکستانی پولیس کے حکم سے روگردانی کی جرات کی تھی۔ اب ناروے میں اس کے ساتھی اور اس پیشہ سے وابستہ دوسرے لوگ یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں یہ سب کیسے ممکن ہے۔ صحافی اپنا فرض ادا کرنے کے لئے گھر سے نکلے لیکن اسے پولیس پر حملہ کرنےاور اقدام قتل کاالزام عائد کرکے قید میں ڈال دیا جائے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ اس ملک میں یہ کیسی میڈیا کی ٓزادی ہے۔

پاکستان میڈیا کی آزادی کی حالت زار تو نواز شریف کی واپسی پر نیوز ڈائریکٹرز کو ملنے والی ہدایت، پیمرا کے انتباہ اور سابق وزیر اعظم کے نہ نشر ہونے والے انٹرویوز کی صورت میں سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ لیکن ناروے جیسے ملکوں کے بعض سادہ لوح صحافی اب بھی اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ اگر کسی ملک میں سول حکومتیں قائم ہوں، عدالتیں متحرک ہوں اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہو تو وہاں صحافی اور صحافت کی آزادی لازمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اگر یہ ملک ناقص عدالتی فیصلوں کے ذریعے تین بار منتخب ہوکر وزر اعظم بننے والے شخص اور اس کی بیٹی کو جیل میں ڈال سکتا ہے تو وہاں قلم یا مائک کی ’طاقت‘ کوکون پوچھتا ہے۔

پاکستان کا سب سے معتبر انگریزی اخبار ڈان دو سال سے حکومتی ہراسانی کا شکار ہو کر اپنے اداریے میں ریاستی جبر پر صدائے احتجاج بلند کرچکا ہے۔ آئین کی شق 19 کی دہائی بھی دے چکا ہے۔ لیکن نیا پاکستان بنانے کی دھن میں اس وقت سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں یا عدلیہ کے پاس ان معمولی باتوں پر غور کرنے کا وقت نہیں ہے۔ انہیں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینا ہے، ماضی کے سب وزیر اعظموں کو ’چور‘ ثابت کرکے جیل میں ڈالنا ہے، سپریم کورٹ نے ڈیم بنانے ہیں اور ملک کے قرضے اتارنے ہیں ۔ ایسے میں صحافی اپنے حقوق کی حفاظت خود کرسکیں تو کرلیں۔ جیسا کہ ناروے کا ٹی وی ۔2 گجرات میں اپنے وکیلوں اور اسلام آباد میں ناروے کے سفارت خانہ کے ذریعے قذافی زمان کی رہائی کے لئے کررہا ہے۔ اسے ہی شاید پریس فریڈم کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali