نواز شریف اور پنجاب میں مزاحمتی سیاست کی روایت


قومی احتساب بیورو نے تین بار وزیراعظم کے سنگھاسن پر عوامی ووٹ کے زور پر بیٹھنے والے نوازشریف کو دس سال قید اور اس سے پہلے تاحیات نا اہل قرار دیا ہے۔ فوجی آمر کے آنکھوں کا تارا مسلم لیگ ن اچانک کیسے اسٹبلشمنٹ کے ساممنے کھڑی ہو گئی۔ پاکستانی تاریخ میں پنجاب کے کسی پاپولر لیڈر کا پہلی بار عدالتی اور عسکری دونوں قوتوں سے آمنا سامنا ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے اس نیکی کا حق صرف قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کو ملتا رہا ہے۔ میاں نواز شریف سے کونسی خطا یا گناہ ہوا جس پر ”لڑکے“ اور ان کے ”جی حضور“ اتنے آگ بگولہ ہو گئے ہیں کہ کمزور جمہوریت کا بھی انھوں نے ستیاناس کردیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کو زیادہ تکلیف اور سیاسی انتقام کا نشانہ بھی اسٹبلشمنٹ نے میاں نواز شریف کے دور میں بنایا تھا۔ سوشل میڈیا پر بی بی شہید کی وہ تصاویر ابھی بھی گردش کر رہی ہیں جب وہ جیل سے بچوں سمیت باہر نکل رہی ہے پی پی پی کی قیادت پر نادیدہ قوتوں کے کہنے پر مختلف مقدمات بنائے گئے بدقسمتی سے ان دنوں میں بھی مسلم لیگ ن کی مینڈیٹ والی حکومت ہوا کرتی تھی۔

اگرچہ میاں نوازشریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے ساکھ بحال کر دی مگر ظالم قوتوں نے بی بی شہید کو راستے سے ہٹا کر میثاق پر اس کے روح کے مطابق کام نہ ہوسکا۔ نواز شریف اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کا برسوں کا یارانہ کب دشمنی میں بدلا؟ جب مشرف نے بغیر پوچھے کارگل کی جنگ چھیڑی اور پھر عوامی کو بتایا کہ نوازشریف نے امریکی صدر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ وہاں سے مسلم لیگ ن کے لئے مسائل شروع ہوگئے تھے اس کے بعد تو میاں صاحب جلاوطن کر دیے گئے۔

2013 میں پنجاب کے دائیں ونگ کا فلسفہ رکھنے والی اس جماعت نے جب آئین شکن جنرل پرویز مشرف کو سزا دینے کی ٹھان لی تو راولپنڈی سے چند میل کے فاصلے پر بنی گالہ کے رہائشی ایک شخص کو ٹاسک دیا گیا کہ اب جمہوری نظام کو کمزور کرنا آپ کی ذمہ داری ہو گئی جس میں وہ کامیاب وکامران ٹھہرے۔ شاید اس شخص کو علم ہی نہیں کہ اسی جال میں اس نے خود بھی پھنسنا ہے۔ جنرل مشرف کو سزا دینا عدالتی کام تھا مگر ظلم کی انتہا یہ ہوگئی کہ مجرم کمانڈو باہر بھاگ گیا اور اس نے خود اعتراف کیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے ملک سے نکلنے میں اس کی مدد کی۔

جب بھی کوئی غیر درباری پاکستانی تاریخ لکھے گا تو ہر ڈکٹیٹر کو خوش آمدید کہنے والے سیاستدانوں کے علاوہ جرنیلوں کی شاہانہ زندگیوں اور مخصوص احتساب کے بارے میں بھی لکھے گا۔

میاں نوازشریف اب صحیح معنوں میں پاکستانی لیڈرابھر کر سامنےآیا ہے۔ ان کی اگریسو سیاست کو ترقی پسند اور ریاستی جبرکے مارے بلوچ، اندرون سندھ کےلاپتہ سندھیوں سمیت پشتون بیلٹ کے مزاحمتی سیاست کے دلدادہ پشتونوں کی پسندیدہ سیاست مسلم لیگ ن کرنے لگی ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور چترال کے ووٹرز اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والے نعرے متوجہ کر رہے ہیں مصالحتی اور روایتی ”یس سر“ کی پالیٹکس پاکستان میں آخری سانس لے رہی ہے۔

نوازشریف اور مریم نواز کی جارحانہ بیان بازی اصل میں اس ملک کی بنیادی اکائیوں کو مضبوط کرنے لئے ہیں۔ آئین تو 1973 میں بنا ہے مگر ہمیشہ معلق رہا۔ اسلام آباد میں ہونے والے فیصلے کسی دوسری جگہ سے ہوتے رہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک گرے لسٹ میں شامل ہوگیا ہے جس کا خدشہ مشہور زمانہ ڈان لیکس میں ظاہر کیا گیا تھا مگر اس وقت اور مسلم لیگ ن کو اداروںکے خلاف زہر اگلنے کا ملزم ٹھہرایا گیا۔ ۔

اٹھارہویں ترمیم میں مارشل لاء کا راستہ مکمل طور پر بند کرنے کے بعد حاسد اور آئین دشمن قوتوں کو تکلیف پہنچی ہے اس لئے اس ترمیم کو ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور بہانہ یہ کہ وفاق ہمیں فنڈز نہیں دیتا۔ ایک مجرم جرنیل کو سزا دینے کی کوشش کرنے والوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا اس ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ انتقام کی بجائے ہم مزاحمتی سیاست کو ترجیح دیں گے۔ ہم 2018 میں زندگی جی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ماڈرن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ نئی نسل نے نیوٹرل کتابیں بھی پڑھ لی ہیں۔ انٹرنیٹ کے دور میں حقائق اور سچائی چھپائی نہیں سکتی۔

میاں نواز شریف نے کہا کہ میں آئندہ کی نسلوں کے لئے قربانی دینے کےلئے وطن واپس آرہا ہوں مگر میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ مسلم لیگ ن پر پاکستانی عوام کا قرض ہے اور یہ اس جماعت کا فرض ہے کہ پرانے دنوں کا کفارہ ادا کرے۔ پاکستانی عوام ایک زمانے سے اینٹی اسٹبلشمنٹ پنجابی لیڈر کے انتظار میں تھی۔ ویلکم میاں صاحب ٹو دی کلب آف مزاحمتی سیاست۔ اب جی حضوری نہیں، آئین کی بات ہو گی، ہر ایک کا محاسبہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).