سانحہ مکول، عورت اور جرگے


\"umarایبٹ آباد کے ایک گاؤں مکول میں لڑکی کو غیرت کے نام پر زندہ جلائے جانے کے انتہائی تکلیف دہ واقعہ کے بعد چند روز تک صالحین کی خاموشی کے بعد اب اس واقعہ کے حوالے سے روایتی بیان بازی اور دلائل دینے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ صالحین نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اس افسوسناک واقعہ پر جس انداز میں دلیلیں پیش کر کے اس کے اصل محرکات کو چھپانے کی کوشش کی ہے وہ از خود انتہائی افسوسناک امر ہے۔ یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ہمارے معاشرے کے بہت سارے صالحین اس واقعہ کو عین درست مانتے ہیں اور ان کے خیال میں ایسا ہونا اس معاشرے کو نا صرف بے حیائی سے محفوظ کرے گا بلکہ حقوق اور آزادیوں کے نام پر آزاد ہوتی عورتوں کو لگام ڈالنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ میرے ایک عزیز صحافی دوست نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس واقعہ کے بعد مکول سے ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق مکول اور گردو نواح کے گاؤں کے لوگوں نے اپنی بچیوں کو اسکولوں سے اٹھا کر گھروں میں بٹھانا شروع کر دیا ہے۔

کچھ صالحین کی رائے کے سانحہ مکول کے سارے واقعے کے پیچھے ایک گروہ کا ہاتھ ہے جو کہ چند اوباش اور لفنگے لوگوں پر مشتمل ہے اور ایسے لوگوں کے گروہ کو جرگہ کا نام دینا انتہائی نامناسب بات ہے۔ ان صالحین کے خیال میں جرگہ کسی آبادی، قبیلے یا گاؤں کے چند معززین پر مشتمل ہوتا ہے اور اس مکول سانحہ میں اس گروہ کے لیے جرگہ کا لفظ استعمال کرنا ان کے خیال میں غلط ہے۔

میری ناقص رائے اور عقل کے مطابق ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں عورتوں کے حوالے سے جرگوں کے فیصلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہاں خاندانی دشمنیوں میں عورت کو قتل کے بدلے میں مخالف خاندان یا قبیلے میں شادی کر کے دے دیا جاتا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی عمر کیا ہے اور جس سے اس کی شادی ہو رہی ہے اس کی عمر کیا ہے۔ ونی، سورہ، کاری اور نہ جانے کون کون سے رسمیں اور روایات اسی معاشرے میں پائی جاتی ہیں اور یہ سب طے کرنے والے بھی یہاں کے جرگے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں جرگوں کے عورتوں کے خلاف کیے گئے فیصلوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کا یہاں بیان کرنا نا ممکن ہے اور ایسے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ جن کو بیان کرتے اپنے انسان اور خاص طور پر مرد ہونے پر شرم آ جاتی ہے۔ یہ جرگے کا ہی فیصلہ تھا کہ جس نے اسی ہزارہ کی ایک عورت کو ننگا کر کے سارے گاؤں کا چکر لگوایا تھا اور اس جرگے میں بھی وہی لوگ شامل تھے کہ جن کو ہم اپنے پسماندہ ذہنی معیارات کے مطابق معزز سمجھتے یا مانتے ہیں۔

رہا سوال معززین کا تو ہم کیسے طے کریں گے کہ کون معزز ہے اور کون نہیں؟ ہم یہ کیسے طے کریں گے کہ معزز ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور یہ سب کون طے کرے گا؟ ہماری آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ کہ جس کو ان جرگوں میں نمائندگی ہی حاصل نہیں ہوتی ان کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس نصف سے زائد آبادی کے بارے میں فیصلے کرتے پھریں؟ اس سب کو ایک طرف رکھیے اور اس سوال کا جواب ہی دے دیجیے کہ اس جرگے کے فیصلے کی کیا قانونی اور آئینی حیثیت ہے؟ کیا جرگہ آئین اور قانون کے تحت قائم شدہ کوئی ریاستی ادارہ ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم ایسے کسی بھی ریاست کے متوازی نظام کو ہر گز نہیں مانتے۔ ریاست کا اپنا ایک آئین ہے اور اس کے تحت اس ریاستی نظام کو چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے گئے ہیں اور انہیں قوانین پر عملدرآمد کے لیے ریاستی ادارے موجود ہیں۔ اس سب کے ہوتے ہوئے کوئی فرد، گروہ یا جرگہ کسی بھی طور پر یہ اختیار نہیں رکھتا کہ وہ اپنے طور پر لوگوں کو سزا اور جزا دیں۔

 ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں فیصلوں پرزیادہ اختیار مردوں کا ہوتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے سے لے کر خاندان کے کسی بھی دیگر معاملات یا رشتوں کو دیکھیں تو اکثر مردوں کو ہی حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور خاندان کا سربراہ بھی مرد کو ہی مانا جاتا ہے اور خاندان کے سربراہ کے فوت ہونے کے بعد اس کا بھائی یا بیٹا ہی خاندان کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حوالے سے جو نظریات پائے جاتے ہیں اس سب میں عورتوں کے لیے زندگی گزارنا مردوں کی نسبت بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ اس مردوں کے اجارہ دار معاشرے میں عورت کے لیے بہت سارے مسائل ہیں جو کہ ہم سب کی توجہ چاہتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں ہم ریاست کے سوا کسی بھی ایسے گروہ یا جرگوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ عورتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے گا یا پھر ان کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

ہمیں عورت کو بھی مردوں کے برابر کا انسان سمجھنا ہو گا اور ان کے ان تمام حقوق کا احترام اور تحفظ یقینی بنانا ہوگا جو انہیں مردوں کی طرح انسان ہونے کے ناطے حاصل ہیں۔ ریاست پاکستان انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدے سمیت حقوق کے دیگر تمام معاہدوں اور اعلامیوں کے مطابق نا صرف ملک میں قانون سازی کو یقینی بنائے بلکہ اس پر بہتر انداز میں عملدرآمد کو یقینی بنا کر معاشرے میں سے ایسی تمام اقدار، رسم و رواج اور نظریات کا خاتمہ کیا جائے جو کسی بھی طور عورت کے مخالف ہوں اور ان کے حقوق سے متصادم ہوں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments