شاہ قاچار، وزیر جنگ اور رضا خان: محلاتی سازشیں اور بدقسمت ایرانی قوم


 پس جب رضاخان کی سب بات چیت شاہ کے ساتھ ختم ہو چکی اور رضاخان نے شاہ سے بھی تحریری عہد و پیمان لکھوا لیا تو شاہی محلات سے روانہ ہو کردوبارہ و زیر جنگ کے مکان پر پہنچا۔ وزیر جنگ کو اپنی کارروائی یعنی شاہ کے قتل کی تجویز سے اس طرح آگاہ کیا اور اسے اپنی پٹی پر لگا لیا۔

وزیر جنگ کو یوں سمجھایا کہ میں نے شاہ کے قتل کا انتظام کر لیا ہے لیکن ہم دونوں کا شاہ کے قتل کے وقت یہاں پر طہران میں رہنا ٹھیک نہیں تاکہ عام لوگ ہمارے اوپر شبہ نہ کریں۔ کیونکہ آخر کار وہ شاہ ہے اور ملک میں اس کے چاہنے والے بھی بہت ہیں۔ گو وہ چال چلن کے حساب سے خراب ہو چکا ہے لیکن پھر بھی شاہی خاندان کا فرد اور گزشتہ شاہوں کا پوتا، پڑپوتا ہے۔ نیز قاچار خاندان کی یادگار اور اولاد میں سے ہے۔

احمد شاہ قاچار کی ایک داشتہ

کہیں ایسا نہ ہو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ شاہ کی جان لیتے لیتے اپنی جانوں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ شاہ کی پشت پر سلطنت انگلشیہ بھی ہے اور انگریزوں کا ملک میں رسوخ اور زور بھی کافی ہے۔ وہ اس وقت طاقت بھی کافی رکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو ہم کو اور ہمارے ملک کو زیر بھی کر سکتے ہیں۔

اپنے ساتھ متفق کرنے کے لیے یہ بھی بتلا دیا کہ میں نے شاہ کو راضی کر لیا ہے کہ ہم ہر دو کو انزیلی کی طرف روانہ کر دے۔ ہم شاہی حکم کے مطابق طہران سے دور بھی چلے جائیں گے اور اسی اثنا میں شاہ کا کام بھی تمام ہو جائے گا۔ ہم پر شاہ کے قتل کا کوئی الزام و شبہ کرنے کا امکان نہیں رہے گا۔ اس گفتگو سے پیشتر وزیر جنگ شاہ کا حکم ماننا تو درکنار بلکہ اس کی جان کے درپے تھا۔ وزیر جنگ کے زوال کا زمانہ آن پہنچا تھا۔ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھود رہا تھا خود اس کے لیے گڑھا تیا ر ہو چکا تھا اور وہ رضا خان کی چال اور پٹی میں آ گیا۔

شاہ قاچار برطانیہ کے دورے پر

پس اس طرح سب کارروائی کا بندوبست کرکے جناب رضا خان دونوں تحریریں اور معاہدے، ایک وزیر جنگ کی طرف سے اور دوسرا شاہ کی طرف سے، اپنے قبضے میں لے کر گھر پر جا کر آرام سے سو رہا۔ وزیر جنگ کو بھی رضا خان پر کافی اعتماد تھا دوسری طرف شاہ بھی اپنی جان بچ جانے کی وجہ سے تسلی سے خدا کا شکر ادا کرکے سو رہا۔

 صبح ہوتے ہی شاہ نے مجلس کو آراستہ ہونے کا حکم دیا اور تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر پہلا حکم جو دیا وہ تھا جنرل رضا خان اور وزیر جنگ کو شمالی علاقہ کی طرف بھیجنا۔ اس حکم سے شاہ کی ملک سے محبت اور دلچسپی کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ مجلس کو یہ حکم پاس کرنے میں کوئی عذر نظر نہ آیا۔ جنرل رضا اور وزیر جنگ، جو کہ حکم جاری ہوتے وقت مجلس میں بذات خود حاضر تھے، فوراً رضامند ہو گئے بلکہ خوشی کا اظہار کیا اور ملک و ملت نیز شاہ کے وفادار ہونے کا مجلس اور شاہ کو یقین دلایا۔ وہ فوراً سفر کے لیے تیار ہو گئے اور اسی روز طہران سے روانگی کا اعلان کر دیا۔

جب ہر دو افسران اعلیٰ شمالی علاقے میں پہنچ گئے تو رضا خان نے حسب وعدہ جو کہ شاہ سے خفیہ طور پر کیا گیا تھا، شاہ کو اطلاع دے دی۔ شاہ نے اطلاع پاتے ہی حسب صلاح و مشورہ، جو کہ رضا خان سے کیا گیا تھا، گورنر علاقہ کو پرائیویٹ طور پر وزیر جنگ کی بابت سب طرح کی ہدایت بھیج دی اور جنرل رضا خان سے مزید مشورہ کرنے کے لیے سخت حکم دے دیا۔ اس شاہی حکم کے پہنچتے ہی گورنر مذکور نے رضا خان کو پہلے بلا لیا اور اس کو سب حالات اور شاہی حکم سے مطلع کیا۔ رضا خان کو پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا بلکہ اس کا خود ساختہ تجویز و منصوبہ تھا۔

شاہ قاچار فرانس کے دورے پر

پس رضا خان نے گورنر کو سہل تجویز اس طرح دی کہ وزیر جنگ کا کس طرح خاتمہ کیا جائے۔ آپ ،یعنی گورنر، ہم دونوں کو رات کے وقت کھانے پر مدعو کریں۔ کھانے اور شراب نوشی کے بعد آپ شاہی حکم وزیر جنگ کے سامنے رکھ دینا جو کہ اس وقت سویلین کپڑوں میں اور بے یار و مددگار ہو گا۔ اس وقت جو جی چاہے کر لینا۔ خاتمہ کر دینا یا ملک بدر کر دینا اور یہ کارروائی چپ چاپ اور بالکل خاموشی سے ہونی چاہیے۔ پس گورنر نے رضا خان کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ اسی شب ہر دو صاحبان، وزیر جنگ اور رضا خان، کو دعوت پر بلایا۔ دعوت خوب پرتکلف تھی۔ ان کے علاوہ اور کوئی بشر دعوت کے موقع پر نہیں تھا یا جان بوجھ کر نہیں بلایا گیا تھا کیونکہ وزیر جنگ کے لیے دعوت نہیں تھی بلکہ پھانسی تھی یا خاتمہ کی سبیل ۔خیر جب کھانا وغیرہ ختم ہو گیا تو رضا خان درد شکم کا بہانہ کرکے گورنر کے بنگلہ کے کسی دوسری طرف چلا گیا تاکہ بروقت گرفتاری جناب وزیر جنگ سے آنکھ بھی ملانے کا موقع نہ رہے جس سے کچھ نہ کچھ اپنی عیاری اور چالاکی کا احساس نہ ہو یا دل میں محسوس نہ کرے۔ جو بھی ہو میری غیر حاضری میں ہو یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

خیر مختصراً جب گورنر نے وزیر جنگ کو شاہی حکم سے مطلع کیا تو وزیر بے چارے کے عقل و حواس گم ہو گئے۔ اس پر سوچنے کے لیے گورنر نے صرف چند منٹ دیے اور کہا کہ دو طرح کا حکم ہے۔ قتل یا ملک بدر۔ جو چاہو اختیار کر لو۔ اس وقت وزیر جنگ بے چارہ بے بس تھا۔ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو رضا خان بھی ندارد۔ پس آخر کار بے چارہ نے ملک بدرہونے کی تجویز منظور کر لی۔ وزیر جنگ واقعی بڑا قابل اور لائق تھا اور ملک کا خیر خواہ بھی تھا لیکن جب قسمت بدلتی ہے اور زوال کا وقت آتا ہے تو سب تجویزیں اور حیلے بھول جاتے ہیں۔ اپنے بھی پرائے بن جاتے ہیں اور دوست دشمن بن جاتے ہیں۔اگرچہ گورنر کو خود وزیر جنگ کی حب الوطنی اور عقل مندی کا علم تھا لیکن وہ شاہی حکم کے آگے مجبور تھاجیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے۔ پس بے چارے وزیر جنگ کو راتوں رات کئی سو میل دور پر روس کی حد میں بے یارومددگار، بے آب و دانہ کے چھوڑ دیا گیا۔ جو دوسرے کے لیے گڑھا کھودے اس کے لیے پہلے ہی تیار ہو جاتا ہے۔

1925ء مین احمد شاہ قاچار کی اپنی معزولی کا منظر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2