آف شور کمپنیاں : اندھوں میں گھرا ہاتھی


\"Imran-khan-angry\"عمران خان کی آف شور کمپنی کی خبر سامنے آتے ہی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور ملک کے اینکرز و کالم نگاروں کی تو گویا چاندی ہوگئی ہے۔ اب اپنے اعمال نامے کی سیاہی دیکھے بغیر ہر شخص یہ دریافت کررہا ہے کہ آپ تو خود اس دلدل میں پھنسے ہیں، آپ کیوں کر دوسروں کی آف شور کمپنیوں اور دولت پر سوال اٹھاسکتے ہیں۔ دوسری طرف پاناما لیکس کے حوالے سے آف شور کمپنیوں کو کرپشن کا ذریعہ قرار دینے کا گمراہ کن رویہ اب گویا خود اپنے دام میں صیاد آگیا کے مصدا ق تنقید کرنے والوں کے مؤقف کو کمزور کررہا ہے۔

یہ بات متعدد بار کہی جا چکی ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانے کے کئی مقاصد اور وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس لئے صرف اس معاملہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف یا ان کے بیٹوں پر نکتہ چینی کرنے کی بجائے اس اصول کی بات کی جائے تو بہتر ہوگا کہ قومی دولت کو لوٹ کر ملک سے باہر لے جانے کا طریقہ ختم کرنے اور اس گھناؤنے کام کو روکنے کے لئے قانون سازی کی جائے، ملک کے احتساب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ان اداروں کی خود مختاری کی ضمانت فراہم کی جائے تاکہ ملک کی سیاسی قیادت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے اور کرپشن کے جن پر آہستہ آہستہ قابو پانے میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ لیکن ملک کے سیاسی عناصر بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ طویل المدت اقدامات کرنے اور نظام کی خرابیوں کو دور کرکے قانون شکن افراد سے جواب دہی کرنے کی بجائے فوری طور پر کوئی بھی معلومات سامنے آنے کے بعد ان کے سیاسی فوائد اٹھانے کے لئے گٹھ جوڑ کرنے لگتے ہیں۔ اس گرمجوشی میں عمران خان بھی گمراہ ہوئے اور کرپشن کے خلاف نظام استوار کرنے کی بات کرنے کی بجائے نواز شریف کو ملزم سے مجرم قرار دینے، جیل بھجوانے اور خالی ہونے والے ’تخت‘ پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر عرض ہے کہ یہ کام اتنی آسانی اور تیزی سے ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسے عمل میں تیزی صرف فوج کی مداخلت سے ہی ممکن ہے جو فی الوقت ایسا اقدام کرنا نہیں چاہتی اور اگر خدا نخواستہ یہ المناک دن ایک بار پھر اس بد نصیب قوم کو دیکھنا ہے تو اس میں عمران خان جیسوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن جہانگیر ترین، شیخ رشید اور زاہد حامد جیسے لوگ ضرور خوش اور کامیاب ہوں گے۔

اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان نے 80 کی دہائی میں کرکٹ کھیلنے کے دوران جو دولت کمائی ، اس کے ذریعے انہوں نے لندن میں ایک فلیٹ خریدا۔ اپنے اکاؤنٹینٹ کے مشورہ پر یہ فلیٹ ایک آف شور کمپنی کے نام پر خریدا گیا تاکہ اسے فروخت کرنے پر ٹیکس میں رعایت حاصل کی جاسکے۔ بعد میں اسے فروخت کرکے روپیہ بنکوں کے ذریعے پاکستان بھیج دیا گیا۔ اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے۔ اگر ہے تو بھی برطانیہ کے قانون کو توڑا گیا ہوگا اور برطانوی حکومت کو ہی اس پر پریشان ہونا چاہئے۔ لیکن عمران خان کو یہ بات اسی وقت بتا دینی چاہئے تھی جب اپریل کے شروع میں پاناما پیپرز کے ذریعے نواز شریف کے بیٹوں اور بیٹی کا نام سامنے آنے پر اسے کالادھن چھپانے کا ہتھکنڈا قرار دیا گیا تھا۔ سیاست میں اس بات کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ کون سی بات کب کہی جاتی ہے اور کون سی چال کب چلی جاتی ہے۔ عمران خان نے خود کو سیاست کا اناڑی کھلاڑی ثابت کیا ہے۔ اب وہ تنقید اور حرف زنی کے جس طوفان کا سامنا کر رہے ہیں ، وہ اسی اناڑی پن کا خمیازہ ہے۔ لیکن اس غلطی کی وجہ سے وہ اس اصولی بحث کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنے ہیں کہ ملک سے دولت لوٹ کر باہر لے جانے والوں کا مناسب احتساب ہونا چاہئے۔

البتہ اس حوالے سے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ دنیا بھر کے ملکوں میں تقریبا ہر شخص ٹیکس بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لئے قانونی اور غیر قانونی ہتھکنڈے بھی اختیار کئے جاتے ہیں۔ پکڑے جانے کی صورت میں متعلقہ لوگوں یا کمپنیوں کو ٹیکس اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی یہ طریقہ کار ہر جگہ عام ہے اور کسی حد تک انسانی فطرت کے مطابق بھی ہے کہ وہ اپنے وسائل میں کسی دوسرے کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتا۔ اسی لئے ٹیکس قواعد اور شرح کے حوالے سے مباحث بھی ہوتے رہتے ہیں اور مختلف حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں اس بارے میں مختلف پالیسیاں بھی اختیار کرتی رہتی ہیں تاکہ ٹیکس چوری کا راستہ روکا جا سکے۔ تاہم پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں ٹیکس چوری اہم ترین مسئلہ نہیں ہے بلکہ اختیار ملنے پر قومی دولت کو لوٹنے ، کمیشن کے ذریعے دولت اکٹھی کرنے اور بیرونی ملکوں و کمپنیوں سے لین دین میں اپنے خاندان کے مفادات کو پیش نظر رکھنے کے معاملات دیمک کی طرح ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک دولت کے حوالے سے نواز شریف کے خاندان پر ٹیکس چوری کے الزام کی بجائے قومی دولت میں نقب لگانے کا معاملہ شامل ہے۔

ان دونوں جرائم کو علیحدہ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی اپوزیشن کا الزام ہے کہ نواز شریف کے بچے جو کاروبار کررہے ہیں ، وہ دولت ملک سے لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجی گئی ہے۔ اسے غلط ثابت کرنے کے لئے عمران خان کی آف شور کمپنی کا سراغ لگانا کافی نہیں ہوگا بلکہ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ان کے بچوں کے پاس کاروبار کرنے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا تھا۔ اگر وہ اس بنیادی نکتے کی وضاحت کردیں اور بتا دیں کہ انہوں نے کب اور کس طرح کتنا سرمایہ اپنے بچوں کو کس طریقے سے فراہم کیا تھا تو یہ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ یہ جواب سامنے نہ آیا تو وزیر اعظم قانون کے پھیر سے تو شاید نکل جائیں لیکن سیاسی اور اخلاقی طور پر ان کی شہرت ضرور داغدار رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali