اتنے بے پروا ارادے، اتنے بے توفیق غم


انتخابات ختم ہونے کے تین دِن بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انتخابی پوسٹر ”ووٹ کو عزت دو“ پر سوئے ہوئے ایک مزدور کی تصویر بناتے ہوئے، رولاں بارتھ Roland Barthes کا مضمون Photography and the Electoral Appeal (تصویر کشی بطور انتخابی ترغیب) یاد آیا، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ”انتخابات کے لیے بنائی جانے والی تصویروں میں اُمیدوار خود کو ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں، جس سے اُن کے انتخابی منشور کا کوئی حصّہ تو خاص واضح نہ ہو، البتہ وہ ووٹروں کو پرفریب سپنے دِکھاتے ہوئے اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر اُکسا سکیں“۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابی اشتہارات پر لگائی گئی اُمیدواران کی تصاویر اور اُن کے ساتھ لکھے ہوئے ترغیبی مواد کا آپس میں کوئی حقیقی تعلق نھیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نڈر، بے باک، سچائی کے پیکر لیڈر عوامی وسائل کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ پر پکڑے جانے کے بعد گھِگیاتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کو ٹُھکرا کر خفیہ معاہدوں کے ذریعے جان و مال بچا کر کھِسک لیتے ہیں یا سزا کی صورت میں اِن کے حق میں عوامی سطح پر کوئی بڑی صدا بلند نہیں ہوتی۔

اُمیدوار انتخابات کے پرشور عمل میں اپنے میڈیا امیج کے ذریعے عوام کو متاثر کرنے کے جتن تو کرتے ہیں لیکن عامتہ الناس کی حقیقی خدمت پر قطعاً یقین نھیں رکھتے۔ دوسری طرف عوام کا رویہ بھی صرف تصویروں میں یا میڈیا چینلز پر نظر آنے والے لیڈروں کے ساتھ ناچار محبوب جیسا ہوتا ہے۔ اُمیدوں اور وعدوں کے انبار تلے پِسے ہوئے عوام ان خود ساختہ رہنماؤں اور اُن کی نسلوں کا بوجھ اپنی کمر پر ڈھوتے رہتے ہیں۔ شاذ ہی کوئی ایسا لیڈر سامنے آتا ہے جو عوام کو خون چوستے لیڈران کے دٙل کی نسل در نسل غُامی سے نکلنے کا شعور دے۔ جس کی انتخابی تصویر اُس کے انتخابی منشور اور طرزِ زندگی سے حقیقی مطابقت رکھتی ہو۔

زندہ و مردہ باد کے نعروں پر رقصاں عوام اگر صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اپنا موازنہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کریں تو خاصے پیچھے نظر آتے ہیں، مگر اب یہی موازنہ اپنے خطے کے اپنے جیسے ممالک کے ساتھ کیا جائے تو بھی انتہائی پس ماندہ ہیں۔ پے در پے جمہوری اور فوجی حکومتوں کی ادل بدل نے عوامی ترجیحات کو پسِ پشت دھکیل کر کم زور معیشت، مسلسل بے روزگاری اور بے بسی کے نتیجے میں لالچ اور انتقامی جذبے کو فروغ بخشا ہے جس کا بد ترین اظہار پاکستانیوں نے اقتدار کے لیے برسرِپیکار قوتوں کے شانہ بشانہ 2018 کے انتخابی عمل میں ایک دوسرے کے خلاف کیا۔

مذہبی نمایندے تو پہلے ہی اپنی سماجی حیثیت کی آڑ میں فرقہ وارانہ نفرت اور گالم گلوچ کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے، لیکن 2018 میں نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ گلی کوچوں میں عوامی نمایندوں اور اُن کے حمایتی ٹولوں نے بھی ایک دوسرے کو غلیظ القابات سے مخاطب کیا۔ پٙھکڑ پٙن میں میڈیا اینکرز بھی سرگرم نظر آئے۔ نتیجہ یہ کے انتخابی پوسٹرز پر تصویروں کی حد تک صادق اور امین لیڈر کے پیروکاروں نے پالتو جانوروں کو مخالف پارٹی کے پرچم پہنا کر بے دردی سے قتل کرنے کی نئی رِیت ڈالی۔ اِن خبروں سے چینلز کی ریٹنگ اور اجتماعی اخلاقی گراوٹ میں حیران کن اضافہ ہوا۔

یہ ہے وہ ریاست جو مذہب کے نام پر بنائی گئی اور جس کے باسیوں کی اکثریت آج بھی مذہبی شناخت پر فخر کرتی ہے۔ جہاں انتخابات میں اپنی فوٹوشاپ تصاویر قائدِ اعظم کی تصویر کے دائیں بائیں لگا کر کشکول توڑنے کے وعدے پر منتخب ہونے والے اقتدار میں آتے ہی عوامی مینڈیٹ کو ذاتی تجوریاں بھرنے میں استعمال کر کے سٹک لیتے ہیں۔ فرار کی ساری منصوبہ بندی اور معاہدے بھی اُن طاقتوں کی رضامندی سے کیے جاتے ہیں جو ان کو عوام پر مسلط کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

عوام بے چارے دونوں حریفوں کا منہ تاکنے کے علاوہ ملکی ترقی و تنزلی میں براہِ راست کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لوٹ مار کے پنچ سالہ منصوبے میں معاشرہ سازی کا عمل مفقود ہو جاتا ہے اور آخر میں اجتماعی مسائل اور پس ماندگی کا ملبا بھی ملکی معاملات میں ہٹ دھرم عوام کی عدم دل چسپی پر ڈال دِیا جاتا ہے۔ پِھر اگر حکمران اور اُن کے اہلِ خانہ مفادات کی جنگ ہارنے پر جیل کی سزا پاتے ہیں تو اُنھی کی پھیلائی ہوئی بے حسی کی وجہ سے بے پروا عوام اُن ہی کے انتخابی منشور کا بستر فٹ پاتھ پر بِچھائے، لمبی تان کر خواب و خُمار کے مزے لوٹنے میں مگن رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).