عظیم فلسفی اور مفکر برٹرینڈ رسل کے خیالات


انسان کے مسائل کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ زندگی کو مقابلہ بازی بنا دیا گیا ہے، یہاں اس دنیا میں چاروں اطراف انسان ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ تمام نظریات و خیالات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ مقابلہ بازی کی وجہ سے صرف دو ہی کام ہوتے ہیں یا انسان مجرم بن جاتا ہے یا وہ جرم کرتا ہے۔ اس دنیا میں دو ہی کام ہورہے ہیں یا انسان جرم کررہا ہے یا وہ مجرم بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کچھ نہیں اوران سب کے پیچھے انسان کا خوف اور لالچ ہے۔ رسل کہتا ہے جو تعلیم انسان کو زہر آلود معاشرہ مہیا کررہا ہے اسی وجہ سے انسان کی ذہانت صلاحیت ختم ہورہی ہے اور وہ آزادی اظہار کے حق سے محروم ہورہا ہے۔ محب وطنی کی تعریف کرتے ہوئے رسل کہتا ہے کہ اس کا مطلب ہے انسان کو قتل کرنا یا قتل ہونا۔

رسل کے نزدیک محب وطنی، قوم پرستی اور عقائد پسندی کی وجہ سے دنیا میں انتشار اور تقسیم ہے۔ آزادی اظہار کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ آزادی اظہار دنیا میں اس وقت وجود میں آئے گی جب دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے گی، جہاں جہاں حکومت اپنے آپ کو محفوظ تصور کررہی ہے وہاں وہاں آزادی اظہار کا دور دورہ ہے اور جہاں جہاں حکومت اپنے وجود اور سیکیورٹی کے لئے تشویش میں مبتلا ہے وہاں آزادی اظہار کا کوئی تصور نہیں، وہاں صرف فوج کا، مذہبی طبقے اور عقائد کا راج ہے۔ آزادی کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ اس کا مطلب ہے انسان جو چاہتا ہے وہ کرے، جو سوچتا ہے وہ بولے، آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور یہی وہ حق ہے جس سے انسان ہمیشہ سے محروم چلا آرہا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں رسل کا کہنا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس میں تمام انسان ملکر ایک ایسے انسان کا انتخاب کرتے ہیں جو تمام الزامات اپنے سر تھوپنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ جو تمام الزامات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

نئی نسل کو نصیحت کرتے ہوئے برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ وہ نئی نسل کو زندگی کے دو پہلو بتاتے ہیں۔ ایک پہلو دانش مندی کا ہے اور دوسرا اخلاقی پہلو ہے۔ وہ کہتے ہیں دانشورانہ پہلو یہ ہے کہ جب بھی نئی نسل کسی بھی ایشو پر مطالعہ کررہی ہو یا کسی بھی فلسفے کے معاملے پر مطالعہ کیا جارہا ہو، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسل اپنے آپ سے سوال کرے، خود سے پوچھیں کہ اس ایشو کے حقائق کیا ہیں۔ اس کے لئے کسی معاشرتی نظریئے سے رائے یا مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ رائے وہی بہترین، اعلی اور ارفع ہے جو انسان کے اندر سے ابھرتی ہے۔ وہ رائے چاہے کسی الہامی خیال سے مختلف اور باغیانہ کیوں نہ ہو، اسی رائے کو حقیقی سمجھنا چاہیے اور اسی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔

یہ تو ہوگیا نئی نسل کے لئے دانشورانہ مشورہ۔ اخلاقی پہلو کے حوالے سے نئی نسل کو نصیحت کرتے ہوئے رسل کہتا ہے کہ اخلاقی پہلو یہ ہے کہ محبت شعور ہے، عقل مندی دانائی ہے اور نفرت یا تعصب بے وقوفی ہے۔ یہ تمام دنیا اور انسانیت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لئے ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے، صبر و تحمل اور برداشت سے ایک دوسرے کی رائے سننی چاہیے اور اس رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ جب ہم ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کریں گے تو دنیا میں تعاون کی فضاء قائم ہو گی۔ ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا آرٹ آنا چاہیے۔ انسانی زندگی کے تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ برداشت سیکھی جائے۔ تحمل، برداشت اور تعاون ہی سے دنیا اور انسانیت میں بہتری اور ترقی ممکن ہے۔ اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2