تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں دوبارہ کس وجہ سے جیتی؟


عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دھن کے پکے ہیں۔ وہ کہتے رہتے ہیں میں آخری گیند تک لڑنے والا آدمی ہوں شکست نہیں مانتا جیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایک نیا پاکستان بنا کر ہی رہوں گا ان کی اسی ثابت قدمی، مسلسل محنت اور اپنے منزل کے حصول کے لیے پکے عزم و یقین نے جھولنے والی اکثریت (swinging majority) کو ان کی طرف متوجہ کیا۔

الیکشن کے روز راقم نے مردان شہر اور مضافاتی علاقوں کے کئی پولنگ سٹیشنوں میں خود جا کر نوٹ کیا اور دوسرے مقامات سے ساتھیوں نے بتایا کہ پولنگ سٹیشنز میں پی ٹی آئی کے کیمپوں میں لوگوں خصوصاً نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ نوجوان اس بار بڑے جذبے سے سرشاراور تندہی سے ووٹرز کو لاتے اورمطمئن کرتے پاتے گئے۔ یہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی ایک واضح انفرادی خصوصیت تھی۔

وجہ جو بھی ہو خواتین میں عمران خان کی مقبولیت اس بار اپنے عروج پر دکھائی دے رہی تھی۔ راقم کے سامنے کئی ایک خواتین سرکاری افسران نے اعتراف کیا کہ وہ پی ٹی آئی کو پسند کرتے اور موقع دینا چاہتے ہیں اور الیکشن میں دلچسپی رکھنے والے کئی غیر جانبدار افراد، سیاسی کارکنوں اورڈیوٹی دینے والے کئی اہلکاروں نے بھی بتایا کہ خواتین کی اکثریت اس بار بلے پر مہر لگانے کی بات کررہی تھیں۔ پی ٹی آئی کی جیت پر شہری اور دیہاتی دونوں علاقوں میں خواتین کی خوشی دیدنی تھی۔

پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت اگرچہ کرپشن کے الزامات سے بچ سکی نہ احتساب کروا سکی اور پہلے دو تین سال تو ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر رہا جب عمران خان پچھلے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلاتے رہے اور پی ٹی آئی وزراء ان کے ساتھ مصروف رہے تاہم یہ ایک عام تاثر رہا کہ یہ اتنے کرپٹ نہیں ہیں جتنے ان کے مخالفین۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں پختونخوا کے ووٹرز نے اپنی روایت توڑتے ہوئے اسے مسلسل دوسری بار مزید بھاری اکثریت سے منتخب کیا؟

دراصل پی ٹی آئی حکومت نے تعلیم، صحت، پٹوار اور پولیس کے محکموں میں جو کام کیا اس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو نظر آیا۔ سکولوں اور ہسپتالوں میں تعمیر و مرمت اور تزئین وآرائش بھی ہوئی اور سازوسامان اور دوائیوں کی فراہمی اور آزاد مانیٹرنگ یونٹ کی وجہ سے سٹاف کی حاضری اور خدمات کی فراہمی میں بھی کافی بہتری نظرآنے لگی۔

ایک دوست کے بقول ”میری بیٹی سکول میں گر کر بازو تڑوا بیٹھی، سکول والے اسے ہسپتال لے گئے اور مجھے اطلاع کر دی، میں تقریباًدو گھنٹے بعد ہسپتال پہنچا تو کئی ڈاکٹر میری بیٹی کے ارد گرد کھڑے تھے۔ سارے ٹیسٹ اور ایکسرے وغیرہ پی ٹی آئی کی مفت ایمرجنسی علاج کی وجہ سے ہو چکے تھے۔ ڈاکٹروں نے دوائی لکھ دی تو میں نے ڈیوٹی اہلکاروں سے کہا مجھے دے دیں تاکہ بازار سے لے آٶں مگر انہوں نے کہا یہ دوائیاں آپ کو ہسپتال سے ملیں گی۔ اب آپ بتائیں اس قسم کے تجربے بہت سوں کو یہاں اور دیگر جگہوں پر بھی ہوئے ہوں گے تو کیا اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو نہیں ملنا تھا؟ “

پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پرویز تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہیں پتہ تھا لوگ پہلے برسوں میں پی ٹی آئی کی خراب کارکرگی بھول جائیں گے اگران کی حکومت آخری دو برسوں میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپوزیشن سے بھی بنا کے رکھی یہی وجہ ہے کہ بیس ارکان کو نکالے جانے کے بعد اپوزیشن نے ان کی اقلیتی حکومت بھی آخری دن تک قائم رہنے دی اور دوسری طرف عمران خان کو جیسے بھی ممکن ہوا راضی کرکے پشاور ریپڈ بس پراجیکٹ اور سوات ایکسپریس وے جیسے منصوبے شروع کروائے جن کو وہ اپنے دور میں مکمل تونہ کر سکے لیکن وہ نظر آنے والے منصوبے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہزاروں کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا، مختلف محکموں میں لاکھوں ملازمین کو ترقیاں دیں، ڈاکٹروں کو اپنی تنخواہوں کے ساتھ 100 فیصد پروفیشنل الاٶنس دے کر مالامال کیا، پچاس ہزار اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی کی۔ ان تمام اقدامات کا پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا۔

پی ٹی آئی کے بارے میں غلط یا صحیح یہ تاثر عام تھا کہ ہیئت مقتدرہ اس کے ساتھ ہے اور اس کی حکومت آنے والی ہے۔ الیکشن سے پہلے ان کے مخالفین کی عدالتی نا اہلیوں اور گرفتاریوں نے اس تاثر کو مضبوط کیا۔ پنجاب میں خصوصاً پی ٹی آئی کو اس تاثر کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔

ایک اور عامل جس نے عام لوگوں کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف متوجہ کیا وہ پی ٹی آئی کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ یہ سٹیٹس کو کے خلاف ایک انقلابی پارٹی ہے جس کی حکومت اگر آگئی اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو پاکستان میں کرپٹ لوگوں کو چوراہوں میں لٹکایا جائے گا، جلد، فوری اور سستا انصاف مہیا ہوگا اور پاکستان میں ترقی، خوشحالی اور امن کا دور دورہ ہوگا۔ اس تاثر نے جیت کی راہ تو ہموارکر لی۔ اب ان کو مطمئن کرنا بھی آسان نہیں ہوگا کہ زیادہ توقعات پر پورا ترنے میں ناکامی پر مایوسی بھی زیادہ ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2