پھانسی دینے اور قید کرنے کی روایت بدلی جائے


پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا اعلان کرنے کے باوجود پنجاب میں شہباز شریف کی طرف سے صوبائی حکومت بنانے کی کوششوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ اس طرح شہباز شریف کو پنجاب میں بدستور پسپائی اور ہزیمت کا سامنا ہو رہا ہے لیکن وہ ایک بہادر اور حوصلہ مند لیڈر کی طرح اپنی کم تر سیاسی حیثیت میں اپوزیشن کا فعال کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ان کا یہ خوف بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہ ہوئے تو انہیں کرپشن کے علاوہ ماڈل ٹاؤن قتل عام کے معاملات میں بھی ملوث کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ملکی سیاسی حرکیات بتاتی ہیں کہ شہباز شریف کو تحریک انصاف کے راستے کا روڑا بننے کی کوشش کرنے پر اداروں کے ’عتاب‘ کا سامنا ہو گا ۔ پیپلز پارٹی نے البتہ نہایت ہوشیاری سے اسپیکر کا عہدہ حاصل کرنے کے امکانات بھی پیدا کرلئے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کو بھی اشارے دئیے ہیں کہ وہ مل جل کر چلنے اور مقررہ اسکرپٹ پر عمل درآمد میں معاونت پر تیار ہے۔ اسی لئے اسے یقین ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے بعد اس کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔ پارٹی کو اس عوامی مزاج کا احساس بھی ہوچکا ہے کہ وہ اس وقت عمران خان کو حکومت کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی 2018 میں ناکامی کو اگلے انتخابات میں کامیابی سے بدلنے کی حکمت عملی بنانے کےعلاوہ حالیہ اسمبلی مدت کے دوران بھی مراعات کی امید قائم کر رہی ہے۔

مستقبل قریب میں اگر نواز شریف یا مریم نواز رہا ہو کر پارٹی معاملات کو سنبھالنے اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے سلوگن کی روح کے مطابق تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو شہباز شریف کی صدارت و قیادت میں مسلم لیگ سے وابستہ بیشتر لوگ اپنے سیاسی راستے الگ کرنے لگیں گے۔ کیوں کہ شہباز شریف نہ تو اقتدار دلوانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کا مشکل وقت ابھی شروع ہؤا ہے۔ اس کا انجام بتانا فی الوقت مشکل ہے۔ ملک میں اگر یہ تاثر موجود ہے کہ تحریک انصاف کو عوام کی اکثریت نے ووٹ دئیے ہیں تو یہ خیال بھی مسلسل مستحکم ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو شکست سے دوچار کرنے کی منظم کوشش کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کا کردار اور انتخابی نتائج منتقل کرنے والے نظام آر ٹی ایس کی ناکامی کا معاملہ بدستور تنازعہ اور اختلاف کا سبب بنا ہؤا ہے۔ الیکشن کمیشن یہ قیمتی سافٹ وئیر ناکام ہوجانے کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں اور اس کا اصرار ہے کہ انتخابات کو ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخاب مانا جائے۔ غلط فہمیوں اور الزامات کی گرد بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ سینیٹر ر ضاربانی نے سینیٹ کمیٹی کے ذریعے اس ناکامی کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن ایک وزارت کے ذریعے تحقیقات کروا کے اس معاملہ کو دبانے کی مقدور بھر کوشش کررہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین اور نمائندوں نے بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو دور کرنے کے لئے ہر تعاون کریں گے اور کسی بھی حلقہ کو کھولنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن ریٹرننگ افسروں کے علاوہ عدالتوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستوں کے حوالے سےاس اعلان کے برعکس مؤقف اختیار کیا جارہا ہے۔ یوں یہ واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں دھاندلی کی شکایات کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں تحریک انصاف کی حکومت کیا مؤقف اختیار کرے گی۔ اسی طرح عمران خان نے کامیابی کے بعد کی جانے والی تقریر میں اگرچہ مفاہمانہ لب و لہجہ اختیا رکیا تھا لیکن پارٹی کے ترجمان اور نمائیندے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور کرپشن میں ملوث ہر شخص کو کیفر کردار تک پہنچانے کے نعرہ نما اعلانات کو دہرانے میں مصروف ہیں۔ عمران خان سے بعض غیر ملکی سفیروں کی ملاقات کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا ہے کہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت ملک واپس لانے کے معاملہ پر بات کی گئی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ماضی میں ملک میں حکومت کرنے والوں کی بدعنوانی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا ہے۔ تحریک انصاف نے ملک بھر میں اپنی پارٹی کے ہمدردوں کے علاوہ عام لوگوں میں بھی اس سوچ کو قوی کیا ہے کہ حکومت کرنے والے سب سیاست دانوں نے قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک جمع کیا ہؤا ہے۔ تاہم اقتدار میں آتے ہوئے تحریک انصاف کو اس تاثر کو زائل کرنے یا اسے ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن کو بدستور سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرکے اگر حکومت سازی کے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی گئی اور سیاسی مخالفین کو انتقام کانشانہ بنانے کا طریقہ اپنایا گیا تو اس سے تحریک انصاف یا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

پاکستان کی مختصر جمہوری تاریخ کا یہ سچ ہر برسر اقتدار آنے والے جمہوری لیڈر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ملک میں کسی بھی منتخب لیڈر کو مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس ملک میں وزیر اعظم کو پھانسی دینے اور قید کرنے کی روایت ضرور راسخ کی گئی ہے۔ اس افسوسناک روایت کو تبدیل کئے بغیر ملک کو جمہوریت یا ترقی کے راستے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali