ہر گھر میں ایک بے نظیر اور ملالہ ہے، ان پر اعتماد کرنا سیکھیں: ضیاء الدین یوسف زئی


فضل ربی راہی: ملالہ پر حملہ طالبان نے کیا تھا جس کا اعتراف تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی کیا تھا۔ احسان اللہ احسان اس وقت پاک فوج کا مہمان بنا ہوا ہے۔ اس کی ساری غلطیوں کو بہ یک جنبش قلم معاف کردیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ پر حملہ میں طاقت ور ریاستی ادارے کے شدت پسندی کے حامل کچھ مخصوص لوگوں کا ہاتھ بھی رہا ہو؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میں اس حوالے سے مختصر سی اور واضح بات کروں گا۔ احسان اللہ احسان ہو، مسلم خان ہو، محمود خان ہو، صوفی محمد کو تو رہا کردیا گیا ہے، یہ سب انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان میں احسان اللہ نے صرف ملالہ پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی بلکہ اس نے اے پی ایس کے 140 کے قریب افراد جن میں 132 کم سن طلبہ تھے، باقی ان میں اساتذہ تھے، ان کو قتل کرنے اور ان کے علاوہ بہت سارے واقعات کی ذمے داری قبول کی تھی، اس کے کردار کو دہشت گردی کے حوالے سے اگر ہم بڑے پس منظر میں لے لیں یا ایک دہشت گرد کی حیثیت سے اس کے کردار کو ہم نظر میں رکھیں تو یہ میرے سمیت اس کا نشانہ بننے والےتمام متاثرین اورمظلوموں بلکہ پاکستان کے تمام عوام کی تسکین کے لئے ضروری ہے کہ اس کا حساب کیا جائے۔

میں تو کہوں گا کہ یہ فوج کے لئے بھی بہت اہم ہے کہ ایک ایسا بندہ جو کہ ایک دو نہیں درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں واقعات کی ذمے داری قبول کرچکا ہے، اگر وہ ان کے پاس ہے اور اگر اس کا کوئی ٹرائل نہیں ہوتا، اس کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا، اس کو سزا نہیں دی جاتی، تو لوگوں کے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے حوالے سے جو مفروضے ہیں، اس سے ان کو تقویت ملتی ہے۔ اگر آپ ایک دہشت گرد کو جو ایک مشہور، علانیہ دہشت گرد ہے اور خود اعتراف کرتاہے، اس کے آئیڈیوز ہیں، ویڈیوز ہیں، اس کے جرائم کے خلاف کیا کچھ نہیں ہے اور اس حملے کے زخمی طلباء میں سے چار تو برمنگھم میں ہیں، یعنی اس کی دہشت گردی کی ایک ایک علامت آپ کے سامنے اور آس پاس موجود ہے، اس بندے کو آپ سزا نہیں دیتے تو اس کی سزا پوری فوج کو ملتی ہے، لوگ ان پہ شک کرتے ہیں۔ وہ اتنے سارے لوگوں کا قاتل ہے، اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ اس بندے کو سزا ملے، یہ بہت اہم ہے۔

فضل ربی راہی: سوات میں طالبان کے ترجمان مسلم خان بھی اس وقت فوج کی تحویل میں ہیں جب کہ طالبانائزیشن میں محض شک کی بنیاد پر ملوث سوات کے بہت سے لوگوں کو ماورائے عدالت بھی ٹھکانے لگایا گیا ہے اور کچھ کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے بھی سزائیں دی گئی ہیں لیکن مسلم خان کو فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے باوجود اس پر عمل در آمد نہیں کیا جا رہا ہے، کیا اس سے ریاستی اداروں کی ساکھ پر سوالات نہیں اٹھ رہے ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: آپ کے اس سوال کا جواب میں نے آپ کے پچھلے سوال میں دیا ہے کہ جب آپ اتنا برملا ناانصافی کر رہے ہوں، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتےہوں، تو پھر قوم کی کوئی عزت رہتی ہے، نہ اداروں کی اور نہ ہی کسی کا اعتماد بحال رہتا ہے۔ دہشت گردی یا طالبانائزیشن کے خلاف جو جنگ ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں جو بد امنی ہے، اس میں پاکستان کا سب سے بڑا نقصان فوج اور عوام کے درمیان بد اعتمادی اور بے اعتباری کی ایک خلیج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس قسم کے واقعات، رویوں اور پالیسیوں کی وجہ سے جو کچھ ہو رہا ہے، اور عوامی سطح پر جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، میرے خیال میں یہ صورت حال ملک کی سلامتی کے لئے بہت خطرناک ہے۔

فضل ربی راہی: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملالہ کے خلاف پاکستان میں اجتماعی طور پر جو منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس میں کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: مجھے تو یہ پتا نہیں کہ یہ پراپیگنڈہ کون کر رہا ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ پروپیگنڈہ سوشل میڈیا پہ زیادہ ہو رہا ہے۔ ان میں چند چیزیں مشترک ہوتی ہیں، ایک یہ کہ جو شخص ایسا کرتا ہے، اس کی پروفائل میں تحریک انصاف کا جھنڈا یا عمران خان اور کسی آرمی چیف کی تصویر موجود ہوتی ہے۔ اب یہ کون کرتا یا کراتا ہے، میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں لیکن پشتو میں کہتے ہیں کہ گول ہے، زرد ہے تو نارنجی ہے۔ تحریک انصاف میں اچھے لوگ بھی ہیں اور عمران خان خود بھی ملالہ کی تعریف کرچکے ہیں لیکن ان کے پیروکار ہمارے خلاف کافی زہریلا پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں لیکن اگر آن گراؤنڈ میں بات کروں تو وہ صورت حال سوشل میڈیا سے بہت مختلف ہے کیوں کہ گیلپ اینڈ گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق جب ہم پاکستان گئے تھے تو 71 فی صد لوگ ملالہ کے واپس جانے سے خوش تھےاور اس کے حق میں تھے، 13 فی صد لوگ ناخوش تھے اور 17 فی صد نیوٹرل تھے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ حقیقت اس پروپیگنڈے کے برعکس ہے۔

فضل ربی راہی: کچھ عرصہ قبل ملالہ سمیت آپ سب اہل خانہ ساڑھے پانچ سال کے بعد پاکستان واپس گئے تھے، اس مختصر دورے کو آپ نے کیسا محسوس کیا تھا؟

ضیاء الدین یوسف زئی: آپ کو شاید پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ میں ہر رات خوابوں میں کبھی شانگلہ اور کبھی سوات میں ہوتا تھا، تورپیکئی کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی میری طرح اپنےلوگوں، رشتے داروں، دوستوں اور سہیلیوں کو مس کرتی تھیں، تو ساڑھے پانچ سال کے بعد پاکستان جانا، خواب کا پورا ہونا تھا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ یہ فیصلہ میرا یا تورپیکئی کا نہیں بلکہ ملالہ کا تھا لیکن ہم پریشان تھے۔ ہم نے ایک موقع پر اسے یہ بھی کہا کہ ابھی نہ جائیں، پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک نہیں ہیں، ایک وزیراعظم کو ہٹا کر دوسرے وزیراعظم کو منتخب کر لیا گیا ہے، اس لئے وہاں سیاسی استحکام موجود نہیں ہے، ہم پھر کبھی چلے جائیں گے لیکن اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس نے تو ہر حال میں جانا ہے۔

ہم والدین بھی ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچے کیسا ری ایکٹ کرتے ہیں،اس لئے میں اس کے عزم سے بہت متاثر ہوا۔ پاکستان جانے کا فیصلہ میں اس لئے نہیں کرسکتا تھا کہ ایک دفعہ اس کی زندگی ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو کر نکل آئی تھی، اسے نئی زندگی ملی ہے، اس لئے ہم اس کی زندگی خطرے میں دوبارہ نہیں ڈال سکتے تھے، لیکن پاکستان جانا ہمارا ایک خواب تھا اور وہ خواب پورا ہوا۔ جو سب سے بڑی خوشی کی بات ہوئی وہ یہ تھی کہ ہمیں اپنے لوگوں نے بہت زیادہ پیار دیا، ہم نے شانگلہ سے قریباً سو ایک سو بیس تک لوگوں کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی، تین سو سے زیادہ لوگ آگئے تھے۔ یہی حال سوات کا بھی تھا، وہاں سے بھی ہم سو کے قریب دوستوں کو بلانا چاہتے تھے لیکن وہاں سے بھی تین سو سے زیادہ لوگ آگئے تھے۔ لوگوں کی جو محبت تھی اور جس پیار سے وہ ملے اور ملاقات کے جو پرمسرت لمحات ہم نے شئیر کئے، وہ یقیناً ناقابل فراموش ہیں۔

فضل ربی راہی: ملالہ فنڈ اور ان کے نوبل پیس پرائز کی رقم سے شانگلہ میں ایک شان دار تعلیمی ادارے کا ایک فیز وجود میں آچکا ہے، اس وقت کتنے بچے اور بچیاں وہاں زیر تعلیم ہیں؟ اس کی ابتدائی کارکردگی سے کیا آپ مطمئن ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: یہ بات پہلے سے ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ملالہ نے جب نوبل پیس پرائز لیا تو اس نے اپنے انعام کی ساری رقم شانگلہ کے گرلز ہائی ماڈل سکول کو دی اور اس نے اس وقت اپنی تقریر میں بھی اعلان کیا تھا کہ اس انعام کی رقم شانگلہ میں ایک تعلیمی پراجیکٹ پر خرچ ہوگی، جہاں سے میرے والدین کا تعلق ہے، پھر اس سکول کے لئے ملالہ فنڈ نے بھی مزید رقم دی۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، آپ سمجھیں کہ یہ دو ملین ڈالر سے زیادہ کا منصوبہ ہے۔ اب اس سکول میں دو سو بچیاں پڑھ رہی ہیں اور اس میں سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ اس سکول میں جتنی بھی بچیاں تعلیم حاصل کریں گی، ان سے کسی قسم کی فیس نہیں لی جائے گی، یہ بالکل مفت تعلیم ہوگی، جس طرح کہ ہمارا ماٹو ہے کہ بارہ سال تک مفت، محفوظ اور معیاری تعلیم ہر بچے اور بچی کا حق ہے تو ہمارے اپنے سلوگن کے مطابق یہ سکول ہوگا۔

میرے ایک رشتے دار نے مجھے بتایا کہ ہمارے گاؤں کی کمہار فیمیلز کی بچیاں بھی اس سکول میں جاتی ہیں۔ گاؤں میں کسی نے اس سے پوچھا کہ یار یہ بچیاں بھی سکول جاتی ہیں؟ کیوں کہ وہ خوب صورت یونی فارم پہن کر قطار میں جا رہی تھیں تو میرے رشتے دار نے اسے جواب دیا کہ یہ تو بنا ہی ان کے لئے ہے۔ شانگلہ کے اس سکول میں وہ لڑکیاں سکول جا رہی ہیں جن میں بیشتر وہ پہلی نسل سے تعلق رکھتی ہیں جس نے پہلی بار سکول کا منھ دیکھا ہے، 99فی صد وہ بچیاں ہیں جن کی ماں یا بڑی بہن پہلے سکول نہیں گئی ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ سکول ہم شروع نہ کرتے تو شاید ان لڑکیوں کی اگلی چار پانچ نسلیں بھی سکول جانے سے محروم رہتیں۔

یہ ملالہ فنڈ کا سب سے بڑا انویسٹمنٹ ہے، یہ اب تک ہمارا سب سے بڑا پراجیکٹ ہےاور مجھے امید ہے کہ یہ بہت آگے جائے گا ۔ ہماری خواہش اور کوشش ہوگی کہ یہ ایک سنٹر آف ایکسیلنس کے طور پر سامنے آجائے اور اس مرکز سے سوات، پورے ملاکنڈ ڈویژن، پختون خوا اور سابقہ قبائل کے علاقوں میں، جنوبی پنجاب،بلوچستان اور سندھ میں اس کا فیض ٖٹریننگ اور کوالٹی اور اس طرح کے مزید اداروں کے بنانے کے حوالے سے پورے پاکستان میں ایک نیٹ ورک کی صورت میں پھیل جائے، یہی ہمارا خواب ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3