ہر گھر میں ایک بے نظیر اور ملالہ ہے، ان پر اعتماد کرنا سیکھیں: ضیاء الدین یوسف زئی


ملالہ یوسف زئی کے والد، ماہر تعلیم، سماجی کارکن اور دانش ور ضیاء الدین یوسف زئی سے خصوصی انٹرویو (حصہ دوم)

فضل ربی راہی: ایک سوشل ایکٹویسٹ، ماہر تعلیم اور پشتو شاعر کی حیثیت سے آپ ملالہ کی پیدائش سے قبل ہی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ کیا ملالہ کے والد کی حیثیت سے جو پہچان آپ کو مل چکی ہے کہیں اس میں آپ کی اپنی شخصیت گہنا تو نہیں گئی ہے؟

ضیاء الدین یوسف زئی: یہ ایک مشکل سا سوال ہے لیکن ملالہ کی پیدائش سے قبل یا جب میرے بچے چھوٹے سے تھے تو میں یقیناً کئی حوالوں سے شہرت رکھتا تھا اور میں اپنے حلقہ احباب میں شاید چند ہی لوگوں میں سے تھا جس کے بچوں کے نام اکثر لوگوں کو یاد ہوتے تھے، یعنی میرے سب دوستوں کو پتا ہوتا تھا کہ یہ ملالہ ہے، خوشحال ہے، یہ اتل ہے کیوں کہ جب میری گفت گو کسی محفل یا پروگرام میں کسی موضوع پہ ہوتی تھی تو لوگ اس کو بہت وقعت دیتے تھے، میری عزت بہت تھی، میں سکولوں اور محفلوں میں مہمان خصوصی کے طور پر جاتا تھا ، یہ میرے لئے بڑی بات تھی، تو اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ میرا جو اپنا سفر تھا، جو میں نے شروع کیا تھا برکانا سے، شاہ پور آکے،سپل بانڈئی میں رہ کے، جہانزیب کالج میں پڑھ کے، پھر بنوں جاکے، پھر واپس آکے، سکول کھول کے اور پھر ایک سوشل ایکٹویسٹ اور ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے، سارے لوگ آپ بھی جانتے ہیں جن کے ساتھ ہم ایک ساتھ کام کرتے تھے، آپ بھی اس کے حصہ تھے اور ہیں، تو وہ میرا سفر تھا جس کو میں نے چن لیا تھا، اور میں اس میں بہت خوش تھا۔

میرا نہیں خیال کہ میں اپنی زندگی میں کسی مرحلے پہ ناخوش رہا ہوں،تو جس زندگی کو میں نے چنا تھا، اس کو ایک طرح سے اسی وقت فل سٹاپ لگ گیا تھا جس دن ملالہ پہ حملہ ہوا۔ میری شخصیت تو ادھر رک گئی تھی، اور اس وقت بھی جب ملالہ کو سوات ہی نہیں پورے پاکستان میں غیرمعمولی شہرت ملی تھی، مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں آخری سال میں جب لوگ مجھے سٹیج پہ بلاتے تھے تو ضیاء الدین کی بجائے کہتے تھے کہ اب ہم ملالہ کے والد کو بلاتے ہیں، تو اس وقت بھی کچھ ایسی صورت حال بن گئی تھی لیکن حملے کے بعد بات عالمی سطح پر اتنی بڑھ گئی کہ میں پس منظر میں چلا گیا۔ میرے دوست جن کا تعلق پرائیویٹ سکولز، سول سوسائٹی، گلوبل پیس کونسل اور سوات قومی جرگہ سے ہے، اگر وہ مبالغہ سے کام نہیں لیتے، وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے خلا کو اب بھی محسوس کرتے ہیں، تو اگر وہ خلا محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں وہاں ایک کامیاب ایکٹویسٹ تھا، ان کے لئے، اپنی کمیونٹی کے لئے۔ آپ صحیح کہتے ہیں کہ شاید اس وقت میں لیڈر تھا، ملالہ ایک قسم کی میری پیروی کرتی تھی، اب وہ لیڈر ہے اور میں اس کا پیروکار رہ گیا ہوں۔ کیوں کہ میرے پاؤں کے نیچے وہ زمین باقی نہیں جس پہ میں کھیلتا تھا۔

فضل ربی راہی: ملالہ پر حملہ یقیناً آپ کے خاندان کے لئے ایک ناقابل فراموش المیہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس بارے میں بعض لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، وہ آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ ملالہ کو آپ نے اپنی شہرت و ثروت کے لئے بطور سیڑھی استعمال کیا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ضیاء الدین یوسف زئی: میرے خیال میں یہ بات وہ لوگ کرسکتے ہیں جو خود باپ نہ ہوں، یا وہ لوگ کرسکتے ہیں جو اس طرح سوچ سکتے ہوں کہ اولاد کو بھی ثروت، دولت، شہرت یا خداناخواستہ عزت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں تو والدین اپنے بچوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے خود سیڑھی بن جاتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے لئے کبھی کبھی اتنے گر جاتے ہیں کہ ان کے لئے بد عنوانی کرتے ہیں، ناجائز کام کرتے ہیں، میں تو اکثر یہی بات کہتا ہوں کہ دیکھنا یہ ہے کہ ملالہ کو شہرت ملنے کے بعد یعنی اس کی یو این کی تقریر سے لے کر، پتا نہیں اسے کتنے اور کیسے کیسے انعامات ملے، اور پھر اسے نوبل پیس پرائز تک کا انعام ملا، اس میں مجھے کیا ملا؟

اگر اس کے بعد میں نے کسی بڑے عہدے یا حیثیت کے لئے دوڑ دھوپ کی ہو تو مجھے الزام دیا جاسکتا ہے لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے، میں تو وہی بندہ ہوں جو پہلے تھا بلکہ میں تو ذاتی طور پر بہت کچھ کھو چکا ہوں، لیکن یہ کھونا ایک لحاظ سے کھونا بھی نہیں ہے کہ میں خدا کا ناشکرگزار نہیں رہنا چاہتا کہ میرے لئے اور ملالہ کی ماں تور پیکئی کے لئے ملالہ کی موجودگی اور اس کا وجود بذاتِ خود بہت اہم ہے، اس لئے نہیں کہ وہ مشہور ہے بلکہ اس لئے کہ وہ ہماری بیٹی ہے کیوں کہ مجھے یاد ہے جب اس پہ حملہ ہوا تو ایک وقت میں نے تور پیکئی کو بتایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ گولی دماغ کے قریب سے گزری ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ فالج زدہ ہوگی، وہ باتیں نہیں کرسکے گی، وہ مفلوج ہوگی، میں نے کہا کہ بس ہم اسے صرف دیکھ سکیں، وہ بستر پہ ہو لیکن وہ ہماری زندگی میں ہو یعنی جب آپ کی اپنی بیٹی کے لئے یہ خواہش ہو کہ وہ ایک لاش ہو لیکن وہ آپ کے گھر میں ہو، وہ آپ کی آنکھوں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل نہ ہو، اس کربناک صورت حال میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لئے کتنی محبت ہوتی ہے۔

A handout picture taken on November 7, 2012 shows injured 15 year-old Pakistani schoolgirl Malala Yousafzai reading a book at the Queen Elizabeth Hospital in Birmingham in central England.  AFP PHOTO /QUEEN ELIZABETH HOSPITAL BIRMINGHAM/HANDOUT

میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ وہ ہماری زندگی میں ہے اور آپ کو پتا ہے، آپ خود اس جدوجہد کا حصہ رہے ہیں، اس حوالے سے مختلف لوگوں کے مختلف ردِ عمل ہوتے ہیں، ہر کوئی ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتا، بعض لوگ سوچتے ہیں کہ وہ کیوں ایسے معاملوں میں ٹانگ اڑائیں، ہر کوئی طالبان کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا، لوگ ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، طاقت ور لوگ بھی خاموش ہیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جب وہ نا انصافی دیکھتے ہیں، ظلم دیکھتے ہیں، اپنے حقوق پہ ڈاکہ ڈالتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ آپ اس جذبے کی وضاحت بھی نہیں کرسکتے لیکن میرے جیسے شخص کے لئے جو کہ انسانی حقوق اور انسانی وقار پہ اتنا ایمان رکھتا ہے جتنا میرا خدا پہ ایمان ہے، اس سے پھر رہا نہیں جاتا۔ تو ملالہ کا استعمال تب ہوتا جب میں خود خاموش رہتا اور اس کو آگے کرنے کی کوشش کرتا، میں نہ بولتا، وہ بولتی لیکن ملالہ خود اس سوال کا جواب بہتر دے سکتی ہے کیوں کہ وہ رکنے والی نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے جب ہم بعض مواقع پہ کہیں جاتے تھے تو میں اسے چپکے سے کہتا تھا کہ اپنی تقریر میں طالبان کا لفظ نہ بولا کرو، لیکن وہ سب سے پہلے طالبان کہ دیتی تھی، میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ میں کہتا ہوں کہ تمہیں احتیاط کرنی چاہئے تم پھر بھی طالبان کا لفظ بار بار استعمال کرتی ہو تو وہ کہتی کہ جب وہ خود کو طالبان کہتے ہیں تو پھر ان کو اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ ملالہ اپنے انداز میں حق کے لئے آواز بلند کرتی ہے، میں نے اس کے لئے کبھی رکاوٹ بننے کی کوشش نہیں کی ہے، جس طرح میں ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ میں نے اس کے پر نہیں کاٹے، میں نے اس کی ہر وقت حوصلہ افزائی کی، میں نے اس پہ اعتماد کیا۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہمارے پدرانہ معاشروں میں بے نظیر بھٹو مردوں کی آئیڈیل ہوتی ہے، بے نظیر بھٹو مجھے بھی بہت پسند ہے، وہ مریم نواز شریف کو اپنا آئیدیل سمجھتے ہیں، اچھی بات ہے میں بھی ان کو پسند کرتا ہوں، لیکن وہ اپنے گھر کی بے نظیر، مریم، کائنات اور فاطمہ، پہ اعتماد نہیں کرتے۔

میں صرف اس لئے ایک مختلف باپ ہوں کہ جب وہ پیدا ہوئی تو میں نے اس پہ یقین کیا اور سوچا کہ اگر بھٹو صاحب کی بیٹی وزیراعظم بن سکتی ہیں تو میری بیٹی کیوں نہیں؟ میرا اس پہ یہ اعتماد تھا، یہ بات استعمال کی نہیں ہے، یقین کی ہے، آپ کے عقیدے کی ہے، اس لئے پدرانہ معاشروں میں جب ان کی اپنی بیٹی کی بات آتی ہے تو وہ Patriarchal ہوجاتے ہیں، وہ کنٹرول حاصل کرتے ہیں، بیٹی کو باہر جانے نہیں دیتے، تعلیم حاصل کرنے نہیں دیتے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ان جیسی خواتین پر اعتماد نہ کریں، وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو ضرور تسلیم کریں لیکن اگر آپ کے اپنے گھر کے آنگن میں بھی مریم، بے نظیر، بیگم نسیم ولی خان، ملالہ یا ان کی طرح کی خاتون رہنماؤں کی صلاحیتوں سے متصف کوئی لیڈر موجود ہے تو اس پہ بھی اعتماد کریں۔ دوسروں کی تو آپ پیروی کرتے ہیں، اپنی بیٹی اور بہن پہ اعتماد نہیں کرتے اور انھیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ میرا یہ ایمان تھا کہ ملالہ سب کچھ کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں اعتماد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ وہ آگے بڑھ رہی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3