وسی بابا اور اس کی قانون شکن سہیلیاں


وہ جو پاکستانی حسینہ تھی ناں۔ اس کی شادی کے لیے ساری تیاری رمشا نے اور میں نے ہی کی۔ سونے کے ریٹ سے کم پر اس کے لیے زیور اکٹھا کیا۔ ظاہر ہے سونے میں یہ سارے گھاٹے کسی اور ہم وطن نے برداشت کیے؛ آدھے پاسے کا زیور خرید کر۔ یہ دیس ہے سخی مستانوں کا اس دیس کی مٹی سونا۔ سمجھ اس ظالم کو بھی ساری تھی کہ کیا ہو رہا۔ ظالم کا نام ظلمی ہی سمجھیں۔ بس ہوا یہ کہ ہم تینوں کا رکشا بن گیا تھا۔ اک دوستانہ ٹرائی اینگل، جو تینوں اک دوسرے کے مدد گار تھے۔ نیک کاموں میں بھلا مددگاروں کی ضرورت پڑتی ہے کیا۔ اس بارے تو یہی حکم ہے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ لگے۔ یہ مدد تو ان کاموں میں درکار ہوتی جس کا کسی ہاتھ کو بھی پتا نہ لگے۔

یہ تین ٹائروں؛ سوری! یہ تین دوستوں والا ’رکشا کلب‘ اک دوجے کی مدد کر رہا تھا۔ رمشا جیولری بکواتی پیسے جوڑ کر امیگریشن کے لیے خفیہ کوششیں کر رہی تھی۔ ظلمی سونا جمع کر رہی تھی، اپنا منگیتر پال رہی تھی؛ اسے گاڑی خریدنی تھی۔ میں ظاہر ہے ان دونوں کے طعنے سن رہا تھا، کہ سست تھا۔ تحفے دے دیتا کسی کو بھی، بس وہ حسب ذائقہ لگے کئی اک بار۔

رمشا نے اک دن پوچھا کہ ”وسی تم نے پاس تو نہیں ہونا۔ کم بخت پڑھتے تو تم ہو نہیں۔ بی اے کے پیپر کیسے دو گے“؟
”نقل کروں گا؛ ہر کام یاب ہم وطن کی طرح“۔
”نقل کے لیے جو عقل چاہیے ہوتی ہے، وہ کہاں سے لانی ہے“؟
”اس کی ضرورت نہیں ہے، پرچا ہی آؤٹ کریں گے“۔
”پرچا کون آؤٹ کرے گا“؟
”ظلمی کرے گی اور کون کرے گا“۔

ظلمی بولی، ”اوئے میں کیوں کروں گی؟ میں پاگل ہوں، کیا؟ سرکاری نوکری تو جائے گی جیل بھی جاوں گی“۔
”جیل تو وہ جاتا ہے جو پکڑا جاتا ہے۔ تم کیوں پکڑی جاو گی“۔

رمشا بولی، ”یار ظلمی اس نے پاس تو کوئی نہیں ہونا۔ کچھ کرنا ہو گا، پیپر تم اپنے والے لفافوں سے کیوں نکالنے کا سوچ رہی۔ یہ جو احمق سے عاشق کولیگ تمھارے اگے پیچھے پھرتے اس کا لفافہ کھولنا“۔

رمشا کی قیادت میں ’پرچا آپریشن‘ ہوا۔ جس دن میرا پیپر ہوتا اس دن رات کو امتحانی پرچا مل جاتا۔ ہم جی جان سے اس کی نقل تیار کرتے۔ سب سے پہلے پیپر دے کر فارغ ہوتا۔ نقل ماروں کا کالج تھا، جہاں اعلی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ایگزامینر حیران ہوتا کہ ایسا علامہ اس کالج میں کبھی نہیں آیا، گھنٹے میں پیپر کر کے چلا جاتا ہے۔

اسٹیٹس کا پیپر تھا، اگزامینر پیار کرنے کو میری ٹیبل کے اوپر بیٹھا تھا۔ سارے ہال سے خطاب بھی کر رہا تھا کہ اک یہ ہے اک تم سارے ہو نقل مار۔ زرا حیا نہیں ہے، او منحوسو! ہم سے نہیں تو اپنے ساتھی طالب علم یعنی وسی سے سیکھو۔ وہ جذباتی ہوا میں بھی جذباتی ہوا، نقل اور پیپر مکس ہو گئے۔ افراتفری میں کاغذ سیدھے کر رہا تھا۔ ایگزامنر نے پکڑ لیا۔

شکر ہے نقل والا پرچا اٹھا کر بھاگا تھا، ہال سے۔ آتے ہوئے وہ ساری گالیاں سنیں جو اگزامینر اپنے آپ کو دے رہا تھا، کہ یہ سارے پرچوں میں نقل کر گیا۔ وہ بھی تب جب میں اس کی ٹیبل پر اسی کے ساتھ بیٹھا ہوتا تھا۔

آخری پیپر تھا۔ اپنے گھر اپنے آفس یعنی بیٹھک میں پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد ’رکشا کلب‘ بھی مکمل ہو گیا۔ ظلمی اور رمشا بھی پہنچ گئیں۔
کیسا ہوا پیپر“؟
”یار! پیپر تو ہو گیا لیکن پکڑا گیا ہوں۔ اب لگتا کچھ برا ہو گا“۔
رمشا بولی، ”ابے چھوڑ! آخری پیپر تھا“۔

اسے کہا، ”یار آخری کدھر تھا۔ اسٹیٹس کا تو ایک پریکٹیکل بھی ہوتا ہے۔ اس کی کاپی پر سائین بھی خود ہی کیے ہیں، پروفیسر کے۔ مجھے اب ڈر لگ رہا۔ کچھ برا ہو گا۔ سارا ’رکشا‘ چپ کر گیا۔

وہی ہوا اسٹیٹس کے پریکٹیکل میں اگزامینر بقلم خود پہنچا۔ اس نے جا کر شکایت لگائی؛ مجھے کہا، چل کر حل اپنا پیپر۔ یہ پریکٹیکل کاپی پر سائن کس کے ہیں؟ بھائی پھنس گیا تھا۔ وٹو یاد آیا کہ جب صاف ہار اور بزتی دکھائی دو تو رولا گھتو یعنی پھڈا کر لو۔ مشر یاد آیا کہ ایسے موقع پر اکڑ جاو۔

یہی کیا؛ اعلان کر دیا کہ یہ پڑی ہے کاپی اور وہ پڑا ہے پیپر؛ نہیں کرتا، جا رہا ہوں۔ اتنا بہادر تھا نہیں، یہ کوئی بہادری تھی بھی نہیں۔ گھر پہنچ گیا۔

رمشا اور ظلمی دونوں بیٹھی تھیں۔ ساتھ اپنی پرنسپل کو لائی ہوئی تھیں۔ یاقوت دلوانے کے لیے۔ وہ اسٹیٹس ہی کی پروفیسر رہی تھیں۔ میں دفتر داخل ہوا تو ساتھ ہی بولا بیڑے غرق ہو گئے۔ رمشا نے گھورا کہ ابے چپ کر جا، منہ بند کر۔ ظلمی بولی، ”وسی! تمھاری تو طبیعت خراب ہے۔ تم تو بے ہوش ہونے والے ہو۔ گر تو نہیں جاو گے۔ وسی تم تو کانپ رہے ہو“۔
زمان آہستہ سے بولا، ”خان دوی وئی چہ زان غزار کا“۔ (خان یہ کہہ رہی ہیں کہ دھڑام سے گر جا)

خان دھڑام سے گر گیا۔ باقی ڈراما رمشا اور ظلمی نے کیا۔ پروفیسر صاحبہ کو جتنی ممکن تھی اس سے زیادہ آگ لگا دی۔ انھوں نے فون کر کے اگزامینر ڈھونڈا، اس کی ایسی لا پا کی، کہ وہ گھنٹے بعد گھر پہنچ گیا۔ پروفیسر صاحبہ او تمھیں شرم نہیں آتی، بچوں کے ساتھ ایسے سختی کرتے ہو؛ بے ہوش پڑا ہے۔ رمشا بولی یہ گھر ہی سے بیمار گیا تھا۔

ایگزامینر کہتا رہ گیا، میڈم اس کی کاپی دیکھیں۔ کیوں دیکھوں؟ خود ہی دیکھ کر لگا دیں، نمبر۔ بھلا پریکٹیکل میں بھی کوئی کسی کو فیل کرتا ہے۔ اگزامینر ایمان داریاں کرتا بزت ہوا۔ اپنے ہاتھوں سے بھائی کو اے گریڈ دے کر پاس کیا۔ کیسے نہ کرتا پروفیسر صرف پروفیسر تھوڑی تھی، وی سی کی بیگم بھی تھی۔

کتنے غور سے کہانی پڑھی ہے، آپ نے۔ ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں بھلا۔ نام دیکھیں رمشا اور ظلمی، حد ہے یار۔ بیس سال ہو گئے ہیں، وہ کم بخت اگزامینر آج بھی کہیں دکھائی دے جائے تو جھلا سا ہو جاتا ہے۔ جھلوں سی باتیں کرنے لگتا، مجھے مارنے کو تو نہیں آتا۔ اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹتا رہتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi