میرے اللہ ! آخر، کب تماشا ختم ہو گا؟ – حفیظ اللہ نیازی کا مسترد شدہ کالم


 بدقسمتی کہ آج بات بہت دور تک نکل چکی۔ آئین سے ماورا حرکات و سکنات بلاخوف دھڑلے سے جاری و ساری۔ 2014ء سے ایمپائر کی انگلی کے اشارے پر ناچنے والی تحریک انصاف 2018ء میں اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونے کے قریب۔ گو عمران خان سینہ تان کر مہرہ بنے، عمران خان کو مورود الزام نہیں ٹھہراتا کہ ذمہ دار کوئی اور۔ پچھلے چار سال تسلسل سے نشاندہی کی، سیاسی جماعتوں میں بٹی قوم، اداروں پر تقسیم ہونے کو، نقار خانے میں طوطی کی آواز۔ منصوبہ کے تحت قوم اداروں پر تقسیم ہوچکی، دشمن کے گَھر گھی کے چراغ جل اُٹھے۔ تحریک انصاف کے ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ بمقابلہ۔۔۔ مسلم لیگ ن ایک کروڑ 29لاکھ (جہاں امیدوار نہیں تھے، کئی لاکھ ان حلقوں کے ووٹ اس کے علاوہ)، پیپلز پارٹی کے 69 لاکھ ووٹ، متحدہ مجلس عمل کے 26 لاکھ ووٹ، عوامی نیشنل پارٹی کے 8 لاکھ، متحدہ قومی موومنٹ کے ساڑھے سات لاکھ، جمہوری وطن پارٹی اور چند دوسری چھوٹی پارٹیوں نے مل ملا کر کل اڑھائی کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ سب سے مستحکم، 5 بڑی پارٹیوں نے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کیے۔ آج یوم آزادی کی تقریب میں صدر مملکت کی تقریر میں اس کا تذکرہ موجود۔

لبیک یا رسول اللہ ﷺکے 22 لاکھ ووٹ بھی انتخابی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ کم و بیش تین کروڑ ووٹرز کی نمائندگی رکھنے والے انتخابی نتائج کو بغیر لفظ چبائے ببانگ دہل شدید غم و غصے میں مسترد کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن، ایم ایم اے، اے این پی الیکشن کمیشن اورکئی دوسرے اداروں بارے شدید تحفظات جتلاتے پھرتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پھوٹے ہنگامے اس کے علاوہ۔ ہنگاموں کی چنگاری شعلہ جوالہ اس لیے نہیں بنی کہ ” وجود“ والی قیادت لاموجود۔ جبکہ پیپلز پارٹی، اندرون سندھ فیض یاب ہوچکی۔ PPP  کی زیادہ سے زیادہ حد، تحریک انصاف پر دباؤ رکھ پائے گی۔ 100 گیڈر کی قیادت شیر کے پاس تو شیربقلم خود چھکے چھڑا دینے، بھگانے کے لیے کافی۔ 1000 شیروں کی قیادت ایک گیڈر کے ہاتھ میں، 1000 شیروں کے چھکے چھوٹنے ہی چھوٹنے۔ ایک شیر جیل میں مقید سلاخوں کے پیچھے، آنے والے دنوں میں نام ہی کافی رہنا ہے۔ کل جب عدالت میں نواز شریف پیش ہوا، تو درجنوں سخت احتجاج کرتے پائے گئے۔ TIP OF THE ICEBURG، کسی وقت معمولی واقعہ نے نظا م کو ہلا دینا ہے۔ نظام کیا ہلے گا؟ حاکم بدہن مملکت ہل سکتی ہے۔

کاش آج مخدوم جاوید ہاشمی، خاقان عباسی اسمبلی میں موجود ہوتے۔ نواز شریف کو چھے آٹھ مہینے پہلے بتایا تھا کہ کڑے وقت میں آپ کو جاوید ہاشمی کی ضرورت رہنی ہے، جاوید ہاشمی کو جناب کی ضرورت نہیں۔ آج کے حالات میری بات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔ کاش جاوید ہاشمی اور خاقان عباسی کو ہر طور اسمبلی پہنچایا جا سکتا، کسی طور ضمنی الیکشن کے ذریعے۔ آج جاوید ہاشمی قیادت کی سطح پر ہوتے، نواز شریف اپنے آپ کواکیلا محسوس نہ کرتے۔ جاوید ہاشمی کا وجود برے وقت سے منسلک، دونوں ایک دوسرے کی کاٹ۔ 73 کے آئیں کے مطابق من و عن حقی سچی جمہوریت کی صورت گری کیا۔ کبھی اس پیرانہ سالی میں دیکھ پاؤں گا؟ کاش ممکن ہو پائے۔ امید کی کرن صرف ایک، نواز شریف۔ نواز شریف کا ڈٹ جانا، میرے لیے صبحِ اُمید۔ تاریخ کی سُن گن نہ رکھنے والے جان لیں، اگر نواز شریف کو جیل میں رکھ کر طاقِ نسیان پر سمجھا بنایا گیا، کڑی بھول چوک ہو گی۔ تاریخ سیاست کا پہلا واقعہ ہوگا، اگر قیدی نواز شریف عروج حاصل نہ کر پائے۔ غلیظ الزامات کی زد میں ملائیشیا کے انور ابراہیم 20 سال قید کاٹنے کے بعد براہ راست وزیر اعظم بننے کو۔ انہونی اس لیے نہیں کہ تاریخ بار بار یہی کچھ دہرا رہی ہے۔ کاش خواہشات پر عقل حاوی رہتی، یہ جاری سرکس ختم ہو پاتا؟ افتخار عارف کی نظم کالم کا احتتام بھی، دل سے نکلی آہ بھی۔

 بکھر جائیں گے ہم کیا، جب تماشا ختم ہوگا

میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لَو

ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات

سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ اُلجھی ہے یا اُلجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا، جب تماشا ختم ہوگا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

کہ پردہ کب گِرے گا، کب تماشا ختم ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2